ہمارے بچپن میں ہمارے ہیرو ڈھول سپاہی تھے، ایک ایسا شخص جو ٹھکے ہوئے مضبوط جسم کے ساتھ کندھے پہ بندوق لٹکائے ایڑیاں جما کر سیلوٹ کرے تو دھرتی کا سینہ چیر دے، ہماری آپاؤں کا ہیرو ہوا کرتا تھا۔
یہ ہیرو، ناپسندیدہ لوگوں کی بدتمیزیوں سے ہیروئین کو بچاتا تھا اور اس کی طبیعت کی یہ نرمی ہی اسے ہیرو بناتی تھی۔
اس کے بعد ’مجاہدین - ان ووگ‘ ہوئے ان لوگوں کے مقاصد صرف عورتوں کو ان کی مرضی سے شادی کرنے سے روکنے کے علاوہ کچھ اور بھی تھے۔
تاریخ جو ہمیں پڑھائی جاتی تھی وہ بھی تیر و تفنگ سے لیس ایسے افراد کو ہیرو بناتی تھی، دو نیم ’جن‘ کی ٹھوکر سے صحرا و دریا وغیرہ وغیرہ، مگر یہ بھی عورتوں کے معاملات میں اگر دخل دیتے بھی تھے تو کسی عورت کی مدد ہی کرتے دکھائے جاتے تھے۔ عورت کو قتل کرنے والا ہیرو ہمیں کہیں بھی نہیں ملا۔
حد تو یہ ہے کہ کہانیوں کی کتابوں میں بھی جو ہیرو آتا تھا وہ مارتا کاٹتا تلوار چلاتا مگر مصیبت میں پھنسی شہزادی کو اس کی مرضی سے جیت کر ہی لے جاتا۔ ’ماچو- مین‘ کا تصور اور غیرت کا تصور، کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔
پھر یہ تصور تبدیل ہونے لگا کچھ مقامی فلموں میں ’بہن کا دوپٹہ، گھر کی عزت، مرد کی غیرت‘ وغیرہ کو عورت سے منسوب کیا گیا اور یہ فلمیں ہٹ ہو گئیں۔
غیرت کا تصور کب اور کیسے عورت کی حفاظت اور اس کی تکریم سے بڑھ کے اس کے قتل تک پہنچا اس میں بڑا گھپلا ہے۔ ’قتل غیرت‘ کا قانون کب اور کیوں بنا؟
صدیوں سے موجود پدر شاہی نظام کے ہاتھ کس دور میں اتنے مضبوط کر دیے گئے کہ اب وفاقی دارالحکومت (جسے آپ دارالخلافہ کہہ کے خوش ہوتے ہیں) کے بالکل ساتھ قتل غیرت ہوتا ہے۔
کوئٹہ سے ذرا دوری پہ بہت سے مرد ایک عورت کو گولیاں مارتے ہیں اور جواب دیا جاتا ہے کہ مرد کو بھی گولیاں ماری گئیں اور یہ، کہ یہ کوئی شادی شدہ جوڑا نہیں تھا۔
کراچی میں ایک مسیحی جوڑا مبینہ طور پہ اسی لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے محبت کی شادی کی۔
یہ پچھلے چند دنوں کے دو کیسز ہیں۔ قصور ایک ہی تھا۔ اپنی مرضی کی شادی یا یوں کہہ لیجیے، محبت کی شادی۔ ان لوگوں کے پاس خود کو بچانے کے لیے ہتھیار بھی نہیں تھے۔ یہ ’شہیدان محبت‘ نہتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق یا اپنا جوڑا چننے کا حق تو جانوروں کے پاس بھی ہے پھر انسانوں سے کب اور کس نے یہ حق چھینا؟
عورت کا اپنی مرضی سے شادی کرنا اور اس کے لیے گھر چھوڑ دینا سوائے اس شخص کے کسی کے لیے غیرت کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے جو عورت کو ملکیت سمجھتا ہے۔
اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اور دفتر میں، گھر میں ، ٹی وی پہ ، پوڈ کاسٹ میں، کسی بھی جگہ جاری گفتگو سنیں۔ آدمی اور عورت کے درمیان موجود فطری محبت سے شدید، گھن اور بے زاری کا احساس کیا جاتا ہے۔
لڑکے اپنے دوستوں سے گھس گھس کے ان کے قصے سنتے ہیں اور پھر دوسری محفلوں میں بیٹھ کے مذاق اڑاتے ہیں یا چھپ چھپ کر اسی لڑکی کو سوشل میڈیا پہ سٹاک کرتے ہیں۔
لڑکیاں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتی ہیں ’توبہ‘ ہم ایسی ویسی لڑکیاں نہیں۔ مرد حسرت سے ذکر کرتے ہیں کہ فلاں صاحب نے تین شادیاں کیں۔ عورتیں تو خیر دوپٹے کے پلو دانتوں میں دبائے، گال پیٹتے اور توبہ کرتے ہوئے ان سب باتوں کو قیامت کی نشانیاں قرار دیتی ہیں۔ ( یاد رہے کہ کنواری کا بر مانگنا، بھی ان بزرگوں کے نزدیک قرب قیامت کی سب سے بڑی نشانی تھی۔)
اس ماحول میں جانے کتنے مرد اور کتنی عورتیں ایک غیر فطری تعلق نبھا رہے ہیں۔ جی ہاں محبت کے بغیر شادی کرنا اور پھر اس شادی کو جس میں کبھی محبت کی مٹھاس شامل نہ ہو، سماجی، معاشرتی یا معاشی وجوہات کی بنا پہ جاری رکھنا ایک غیر فطری عمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسی شادیاں یا تو فریقین کی زندگی میں یاسیت بھرے رکھتی ہیں یا پھر ایک یا دونوں فریق، کسی اور طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ معاشرے نے جو طوق، بیڑیاں اور سلاخیں پیروں میں ڈالی ہیں وہ یہ قدم بھی نہیں اٹھانے دیتیں۔
قدم اگر اٹھا بھی لیا جائے تو غیرت نام کا ایٹم بم لیے ہر ایرا غیرا اس جنگ میں کود پڑتا ہے۔ یہ ہمارے خاندان کی عزت ہے، قبیلے کی عزت ہے، شہر کی عزت ہے، ملک کی عزت وغیرہ وغیرہ۔
بھئی معاف کر دیجئے، آپ کی غیرت آپ کے اپنے عمل میں پنہاں ہے۔ محبت اتنا برا عمل ہے تو خود کبھی نہ کیجیے گا اور اپنی مرضی کے بالکل برعکس ایک ناپسندیدہ شخص کے ساتھ زندگی گزاریے اور غیرت مند کہلائیے۔
زبردستی کی شادیوں یا گلے سڑے رشتوں کو خوف اور دباؤ کے تحت نبھانے والے کبھی کبھی ان راستوں پہ چلے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے شوہر یا بیوی کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔ کبھی پورا خاندان اس لپیٹے میں آ جاتا ہے۔
ایک کے بعد ایک ٹریجڈی ہمارے سامنے آرہی ہے۔ آج سے نہیں جانے کتنے زمانے گزر گئے ہیں۔ کولونیل عہد میں پختہ کیے گئے اس جاہل رویے، ’قتل غیرت‘ کو جب تک مکمل رد نہیں کیا جائے گا، غیرت اور آبرو کی تعریف صرف عورت کے جسم سے مشروط نہیں ہو گی، تب تک یہ واقعات اسی طرح رونما ہوتے رہیں گے۔
جب تک ہمارے ہیرو، محبت کرنے والے نرم دل لوگ نہیں ہوں گے، تب تک یہ سفاک عمل اسی طرح جاری رہے گا۔
میں تو کہتی ہوں جیسے جنگ کرنے پہ اور جنگ میں بہادری سے جان دینے پہ بڑے بڑے اعزاز دیے جاتے ہیں، اسی طرح محبت کرنے اور محبت کے لیے جان دینے پہ بھی کوئی اعزاز دیجیے۔
غیرت کا تصور بدلیے، غیرت قتل کرنے پہ نہیں اکساتی، کوئی باغیرت شخص اپنے آس پاس موجود کسی عورت پہ زندگی اتنی تنگ نہیں کر سکتا کہ وہ بھاگنے پہ مجبور ہو جائے اور جو اتنے بےغیرت ہوتے ہیں وہ قتل کر کے باغیرت نہیں بن جاتے، صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ صرف بےغیرت ہوتے ہیں اب بے غیرت قاتل بھی بن جاتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔