دو انسانوں کے ملنے کی عجیب سی ایکوئیشن!

کپڑوں جوتوں اور بات کرنے کے انداز سے ہم کسی کی اوقات کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہمارا یہ رویہ نارمل ہے یا ہمیں سب کو ایک جیسا سمجھنا چاہیے؟

دو انسانوں کی ملاقات بڑی عجیب سی ایکوئیشن ہوتی ہے۔

فرض کریں آپ پہلی بار کسی سے ملے ہیں، بلکہ دوسری تیسری بار ملے ہوں تب بھی، اس سے آپ جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کے ظاہری حلیے کے حساب سے ہوتا ہے۔

کیا ہم اسے انسانوں کا ججمینٹل پن کہہ سکتے ہیں؟

یہ اس حد تک ہوتا ہے کہ ہم لوگ زبان بھی اسی طرح بولنے کی کوشش میں ہوتے ہیں جیسے سامنے والے کا لہجہ ہوتا ہے۔

کسی پشتو بولنے والے کے ساتھ آپ اردو بھی اسی لہجے میں بولتے ہیں، خالص اردو بولنے والے سے ملیں تو آپ کوشش کر کے بھاری بھرکم الفاظ لاتے ہیں، کوئی اردو والا کسی پنجابی سے ملے تو باوجود سر پیر نہ ہونے کے خواہ مخواہ غلط پنجابی بولے جاتا ہے اور جب کوئی انگریزی میں بات کرنے والا سامنے آ جائے تو لاشعوری طور پہ آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے انگریزی ہی میں مکمل جواب دیا جائے۔

یہ ہمارے دماغ کا آٹومیٹک رویہ ہوتا ہے شاید کسی بھی ماحول میں ڈھل جانے کے لیے، لیکن اس کی ایک دوسری سائیڈ بھی ہے۔

فرض کریں آپ کی ملاقات کسی مرد یا عورت سے ہوئی، اس نے عام سا شلوار قمیص پہنا ہوا ہے، پیروں میں چپل ہیں اور آپ کے سامنے یہ سوال ہے کہ کسی مناسب جگہ جا کر اس  کے ساتھ کھانا کھایا جائے، اسے آپ نے کہاں دعوت دینی ہے؟ ایک نارمل سے باعزت قسم کے ہوٹل میں؟

اب انہی خاتون یا مرد نے جینز اور شرٹ پہنا ہوا ہے، اب آپ کس جگہ کھانا کھانے جائیں گے؟ شاید تھوڑا فاسٹ فوڈ ٹائپ، برگر، پیزا ۔۔۔ کچھ بھی ایسا جو اس لباس کے مطابق ماحول ہو۔

وہی محترم یا محترمہ اگر فل ایلیٹ کپڑوں میں آ جائیں، تھری پیس سوٹ پہنا ہو، چمکتے جوتے ہوں، لڑکی ہونے کی صورت میں ساڑھی ہو، یا میکسی ٹائپ کچھ، یا فراک نما کوئی اور لباس ہو ۔۔۔ تب آپ نے کیا کرنا ہے کھانے کے لیے؟ کوئی فائیو سٹار سی جگہ پہ جائیں گے؟ یا انہیں اسی ڈھابے پر لے جائیں گے جہاں عام طور پہ آپ کھاتے ہیں یا چائے پینے جاتے ہیں؟

کپڑوں جوتوں اور بات کرنے کے انداز سے ہم کسی کی اوقات کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہمارا یہ رویہ نارمل ہے یا ہمیں سب کو ایک جیسا سمجھنا چاہیے؟ اگر ایک جیسا سمجھنا چاہیے تو گھر پہ جو مزدور چونا کرنے آتے ہیں، ان کا کھانا ساتھ والے تندور سے کیوں آتا ہے؟ اور جب دوست یار آتے ہیں تو پیزا یا کڑاہی کیوں منگائی جاتی ہے؟

ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ انسان واقعی سامنے والے کی اوقات اس کے لباس، گفتگو اور مجموعی حلیے کے حساب سے طے کرتا ہے، تو جسے یہ گُر سمجھ آ گیا وہ زندگی بھر خود بھی عزت سے رہتا ہے اور دوسروں نے تو بہرحال عزت کرنی ہی ہوتی ہے۔

اصل یا نقل کا چکر کوئی نہیں ہے، احتیاط کا کھیل ہے سارا۔ ضروری نہیں آپ بہت بڑے گھر میں پیدا ہوئے ہوں تبھی آپ کو مارکیٹ کے ادب آداب آئیں، آبزرویشن اور تھوڑا سا خود پہ دھیان سب کچھ سکھا دیتا ہے۔

تو پہلی بات یہ ہو گئی کہ ججمینٹل پن نہیں ہے یہ، دنیا ہے، دنیا کا ایک نارمل رویہ ہے اور اس میں سیکھنے والوں کے لیے ملامت کی بجائے بہت نشانیاں ہیں!

سوچیے، ایک صدر اپنے لباس سے دکھاتا ہے کہ وہ صدر ہے، چاہے جتنا بھی سادہ پوش ہو، کچھ تو ہوتا ہے نا اس کے پہناوے میں جو اس عہدے کے لائق اسے دکھاتا ہے ۔۔۔ بناتا نہیں، صرف دکھاتا ہے، دکھانے کی بات ہو رہی ہے، ٹرمپ کی مثال لے لیں، اپنے صدر صاحب ہو گئے ۔۔۔ تو یہ سب چیزیں آپٹکس میں شامل ہیں اور ضروری ہیں۔

اب آپ نے کہنا ہے کہ آدمی کی عزت اس کے ظاہر سے نہیں ہوتی باطن سے ہوتی ہے۔ اللہ آلیو، وہ دن لد گئے، جب سے کیمرہ آیا ہے ایسی کہانیاں بننا بہت کم ہو گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو بہرحال، ملاقات کی ایکوئیشن مجھے اس لیے عجیب لگی تھی کہ سلوک جو بھی ہو گا ظاہری حلیے پر ہو گا اور شاید وہی رویہ طے کرے گا کہ ان دو انسانوں کا مستقبل کیا ہے، لیکن جب وہ آپس میں گھل مل جائیں گے، بے تکلف ہو جائیں گے، تب وہی فائیو سٹار والی پارٹی کسی ڈھابے پہ بیٹھی ہو گی اور ڈھابے والے ساری زندگی اکٹھے فائیو سٹار میں جانے کے خواب دیکھتے رہیں گے!

اب واپس آتے ہیں کام کی بات پر جو صرف اتنی ہے کہ نہیں ماننا تب تو آپ بادشاہ ہیں، ورنہ، کسی بھی عام صورت حال میں، یا چیلنجنگ جگہ پر، آدھی سے زیادہ جنگ آپ جیت چکے ہوتے ہیں اگر آپ کا حلیہ ایسا ہے کہ سامنے والا آپ کو معزز سمجھ رہا ہے۔

اب وہ صورت حال یا چیلنج کس وقت نازل ہونا ہے یہ آپ نہیں جانتے۔ گھر کے اندر ہیں تو جو دل چاہے کریں، باہر ساتھ والی گلی تک بھی جانا ہے تو پورے معزز حلیے میں جائیں، باقی آپ کی مرضی ہے۔

یہاں تک لکھ چکا تو ابو کی بات آ گئی، اللہ انہیں صحت زندگی دے، گھر سے باہر نکلتے ہوئے میرے شارٹس تک سے انہیں الجھن ہوتی تھی، ہمیشہ بولتے کہ بھئی میرے ساتھ جانا ہے تو پورے کپڑوں میں نکلو، خود جاؤ تو جو مرضی کرو۔

اور اب، مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے ابو نما بن چکا ہوں، مجھے بھی شارٹس سے کوفت ہوتی ہے، شاید ہم سب نے ابو امی نما بننا ہی ہوتا ہے بالآخر! ایکوئیشن ویسے یہ بھی لاینحل قسم کی ہے!

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ