باس اکیلا ہوتا ہے!

جب باس کو یقین ہو کہ وہ جو کچھ بھی کہے گا شام تک کووں کی سفید ڈار بنا کے اسے مغرب سے مشرق تک پھیلا دیا جائے گا تو وہ کیوں بیٹھے گا کسی کے ساتھ اور دکھ سکھ تو سرے سے ہی کیا کرے گا؟

باس اکیلا ہوتا ہے! جہاں چار لوگ ایک ہی کمپنی کے بیٹھے ہوں وہاں کیا بات ہو گی؟

آؤٹنگ پہ نکلے ہوں یا دفتر میں گپ شپ ہو، موضوع کیا ہوتا ہے؟ آپس کی باتوں سے گھوم پھر کے سب کہاں لینڈ کرتے ہیں؟ باس پر!

باس کتنی چائے پیتا ہے، باس کیا کھاتا ہے، باس کی گھریلو زندگی کیسی ہے، باس کی باہر والی زندگی کیسی ہے، باس نے آج کیا پہنا تھا، باس پہلے کہاں کام کرتا تھا ۔۔۔ اور جب یہ سب چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو پھر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے گوسپ کہتے ہیں۔

کل ایک خاتون باس نے بتایا کہ ’ایسی کہانیاں بھی اپنے بارے میں سنیں لوگوں سے کہ جن کا مرکزی کردار میرے بجائے کسی ڈرامے کی ہیروئن ہونی چاہیے تھی۔‘ میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ کہنے لگیں اس لیے کہ ’جہاں ایک ادارے کے لوگ اکٹھے بیٹھیں گے وہاں ان کے پاس سب سے زیادہ ریلیٹ ایبل ٹاپک کون سا ہو گا؟

’ظاہری بات ہے باس ۔۔۔ تو باس کو پھر باہر مارکیٹ سے اپنے بارے میں ایسا کچھ بھی سننے کو مل سکتا ہے جس کا تعلق حقیقت سے دور دور تک نہ ہو، لیکن چونکہ وہ ان کے ماتحتوں کی پھیلائی ہوئی کہانیاں ہوں گی اس لیے زیادہ تر لوگ ان پر یقین بھی کریں گے۔‘

ساری باتوں کا نچوڑ یہ تھا کہ سربراہ جتنا زیادہ سینیئر ہوتا ہے اتنا اکیلا ہوتا جاتا ہے۔ باس نارمل سٹاف تھا، سب اس کے دوست تھے، دفتر میں بھی گپ شپ تھی، باہر بھی ملتے تھے، وہ تھوڑا سینیئر ہوا، خود اپنے ساتھ کے ہم کار محتاط ہو گئے کہ یار اب تو یہ ’اوپر والوں‘ کا حصہ ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی ادب احترام، پاس لحاظ آ گیا، وہ مزید سینیئر ہوتا ہے تو دفتر کے بعد ایویں ہنسی مذاق یا کھانے پینے کی میز پہ اسے کون ملنا پسند کرے گا؟

سو میں سے شاید ایک دو لوگ، اور وہ بھی اگر باس خود چاہے کہ ہاں یار یہ اپنے بندے ہیں ۔۔۔ لیکن باس کیوں چاہے گا؟

بندوں کے بارے میں باس کی ان سیکیورٹیز کیسے بڑھتی ہیں، ایک مثال دیکھ لیجے۔ مجھ سے کسی نے فیس بک پہ اپنے ذاتی مسئلے کے بارے میں رائے لی، میں نے ہمدردانہ طور پہ جو بہتر سمجھتا تھا کہہ دیا، اگلے دن میرا جواب ان کی سٹوری پہ لگا ہوا تھا کہ حسنین جمال اس مسئلے کے بارے میں یہ کہتے ہیں، دوست بتائیں آپ کا کیا خیال ہے؟

یعنی میں نے جو رائے ذاتی حیثیت میں دی، وہاں سٹوری پہ لگی ہوئی تھی اور اس سے دو تاثر جاتے تھے، نمبر ایک، حسنین جمال ان کے ذاتی دوست ہیں جن سے وہ بلاتکلف کسی بھی وقت رابطے میں ہیں، دوسرا یہ کہ حسنین جمال کوئی نفسیاتی ماہر ہیں جن سے کوئی بھی مشورہ کر سکتا ہے۔

یہ دونوں باتیں غلط ہیں لیکن انسانی ہمدردی کے ایک مظہر کی وجہ سے حسنین جمال ان میں بندھ گئے اور وہ کوئی باس بھی نہیں تھے صرف ایک معمولی لکھاری تھے۔

تو اب کوئی باس کیوں چاہے گا کہ وہ دفتری مسائل کے بارے میں کسی سے مشورہ بھی کرے؟

*ایک حکایت تھی کہ شام کو بستی میں آ کر ایک شخص نے بیان کیا کہ اس نے کووں کی ایک ڈار کو مغرب کی جانب جاتے دیکھا ہے۔ اس ڈار میں ایک کوے کے ایک پر کے نیچے سفید دھبہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس بستی میں یہ قصہ عام تھا کہ ایک شخص نے سفید کووں کی ڈار کو اڑتے دیکھا تھا۔

جب باس کو یقین ہو کہ وہ جو کچھ بھی کہے گا شام تک کووں کی سفید ڈار بنا کے اسے مغرب سے مشرق تک پھیلا دیا جائے گا تو وہ کیوں بیٹھے گا کسی کے ساتھ اور دکھ سکھ تو سرے سے ہی کیا کرے گا؟

باس گپ شپ نہ کرے تب بھی دفتر میں کوا سفید ہو جاتا ہے وہ کر لے تب سوچیں کہ ہو گا کیا؟

لیکن اس سب سے ایک بہت بڑا فرق پڑتا ہے، باس، خود اپنے گنبد میں قید ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دفتر میں دوست ہوتے نہیں اور باہر کے دوستوں کے لیے وقت نہیں بچتا، باس اوپر پہنچتے پہنچتے فائنلی بالکل تنہا ہوتا ہے، کسی بھی معاملے پر آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس کا موقف سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، اگر عملے میں کوئی اس کے حق میں بولے تو دوسرے سب لوگ اس سے بھی محتاط ہونے لگتے ہیں کہ استاد یہ تو کمر پیچھے اتنا ’وفادار‘ ہے منہ پہ کیسا ہو گا؟

تو باس جب تک باس ہے اس کی ریپیوٹ کی حفاظت کا مورچہ بھی اسے ہی سنبھالنا ہے، اور یہ سب میں نہیں کہہ رہا، ہاورڈ بزنس ریویو کی رپورٹ ہے کہ 50 فیصد باس خود کو اکیلا سمجھتے ہیں جب کہ 61 فیصد کے خیال میں یہ تنہائی ان کے فیصلوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

اس کا حل ہم نہیں نکال سکتے۔ میں زندگی میں کوئی پانچ ایک سال باس رہا، میں جانتا ہوں کہ وہ جوتا مجھے کہاں کہاں کاٹتا تھا، ہر باس کے پیر کا سائز الگ ہوتا ہے، اس کے مسائل الگ ہوتے ہیں، حل بھی وقت نکلوا دیتا ہے۔

اصل مسئلہ ہے یہ جاننا اور ماننا کہ اوپر جاتے جاتے آپ اکیلے ہو سکتے ہیں اور آپ کو اس کا حل اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ سوچتے رہنا چاہیے۔

باقی باس ہونا کوئی اتنا ڈراؤنا کام نہیں، موجودہ دنیا میں دوست ہونے سے باس ہونا میرے خیال میں ہمیشہ بہتر ہوتا ہے!

*حکایت: خلیل جبران، راوی: محترم ساجد علی صاحب

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ