اگر آج آپ کمانا چھوڑ دیں تو آپ کی اہمیت کیا ہے؟
یعنی ایک مرد اگر یہ کہہ دے کہ بھئی کمانا وغیرہ میرے بس کا روگ نہیں، نوکری ہو یا کاروبار، میرا موڈ نہیں بنتا، میں نے کچھ نہیں کرنا، میں بس سکون سے رہنا چاہتا ہوں ۔۔۔ تو کون قبول کرے گا؟
پیدائش سے آپ کے گلے میں جو یہ پھندا ڈلتا ہے کمانے کا، مرنے کے بعد بھی نہیں اترتا۔ مر گئے آپ، زمین جائیداد چھوڑ گئے تو اس پہ جھگڑے ہوں گے، غائبانہ گالیاں آپ کا مقدر، نہیں کچھ چھوڑا تو اور زیادہ مسئلہ ہے، یعنی سمجھ لیجے کہ بزرگوار نہیں مرے وراثت کا انتقال ہوا ہے۔
وراثت ۔۔۔ یعنی وہی پھندہ اب آپ کے گلے میں ہے، انتقال تک، آپ کے یا وراثت کے۔
کمانے سے ہم مردوں کو اس قدر محبت ہے کہ لفظ گھر داماد تک کو گالی بنا لیا ہے۔ کبھی رشتے کے اشتہار تک میں آپ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ ’ضرورت ہے ایک بے روزگار مرد کی‘ یعنی باقی بھلے جو مرضی مسائل ہوں، ڈیمانڈز ہوں، کمانا اس قدر بیسک کوالیفیکیشن ہے کہ نہ بھی لکھا جائے تو یہ طے ہے کہ بھائی، چلتا پھرتا ہے تو کماتا تو ہو گا! بلکہ خدا معاف کرے، چلتا پھرتا نہیں بھی، کماتا تب بھی ہو گا۔
روزگار ایسا تگڑا جینڈر رول ہے ایک مرد کے لیے کہ سائنس دان اسے ان کی فطرت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ پرووائیڈر، بریڈ ونر، کماؤ پوت، برسرروزگار ۔۔۔۔ زندگی کی ڈکشنری میں مرد کی پہچان یہی ہے۔ اگر وہ کما نہیں رہا تو گویا اس نے مرد ہونا چھوڑ دیا ہے۔
اب اس تصور میں جکڑا ہر مرد، بچپن سے بڑھاپے تک اسی پھیر میں رہتا ہے۔ صبح، شام، رات، دن صرف محنت، آفس، دکان، ٹھیلا، کمپنی، کارخانہ، کچھ بھی ہو، مقصد ایک ہے: کمانا، اور کمانے کی یہ زنجیر محبت، صحت، رشتوں، نیند، سکون، ہر چیز کو جکڑ لے گی۔
بیماری سے یاد آیا، آپ بیمار بھی ہوں گے تو سامنے تیمار دار کا تیسرا سوال لازمی یہی ہو گا، دفتر کب جوائن کرنا ہے؟ اس سوال کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کہ صاحب یہ جو بستر پہ تم پڑتے ہو، کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ کماؤ گے کب؟ کھلاؤ گے کب؟
فلم، ڈرامہ، کتابیں، جہاں بھی جتنی بھی کہانیاں ہیں، دکھا دیں کوئی ایک ہیرو کہ جو سرے سے کچھ بھی نہ کرتا ہو؟
یعنی پیدائش سے یہ طے ہے کہ میاں مرد، تم ایک سکہ ہو جس نے چلنا ہی چلنا ہے، اس سکے کا دوسرا رخ اگر کوئی ہوا بھی، تو اس کی اہمیت پہلے ہی رخ سے طے کریں گے یعنی ’ویلیو‘ سے، نیٹ ورتھ سے، کہ سکہ ہے کتنے کا؟
محبت تک اندھی نہیں رہی یار اب تو، اپنے گھر بات کریں ذرا شادی کی، امی پوچھیں گی بیٹے، میرے لعل، کیا تنخواہ ہے تیری، اس میں گھر پورا چلا لے گا؟ خاتون کے یہاں بات کریں تو ان کا بھی آف کورس پہلا سوال یہی ہو گا ۔۔۔ کدھر گئی وہ جنگجو قسم کی محبت جس میں سب کچھ جائز ہوتا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرد کی بے روزگاری جنگ اور محبت کی ’سب کچھ جائز‘ والی لسٹ میں بھی ناجائز تھی!
میں اس مرد کو امپاورڈ مانوں گا کہ جو بولے وہ نہیں کمائے گا اور اسے قبول بھی کر لیا جائے بہ رضا و رغبت، یہاں بہ رضا اور بقضائے الہٰی ماننے میں فرق ملحوظ رکھیے گا۔
تو مرد جو ہے وہ لگا ہوا ہے دن رات، لگاتار، وہ تھکے گا بھی، سب کچھ چھوڑنا بھی چاہے گا تو اس کے پاس آپشن نہیں ہے، اس کے پاس رونے والا راستہ بھی نہیں ہے، اس کی خاموشی میں ڈھونڈ لے کوئی اگر کچھ تلاش کرنا ہے، باقی کہیں ایک نشان نہیں ملے گا۔
یہ خاموشی ہے جس کی وجہ سے اس موضوع پہ بولتا ہوا میں، میں بھی آپ کو عجیب لگ رہا ہوں۔
آپ ایسا کچھ بولیں گے تو آپ، سست، کاہل، نکمے، ہڈ حرام یا کچھ بھی کہلا سکتے ہیں لیکن کہیں تو بس ہونی چاہیے کہ نہیں؟
صحت، سکون، رشتوں کی محبت، اچھی نیند، فرصت ۔۔۔ کم از کم یہ سب کچھ تو پیسے کے ساتھ بندھی نہیں ہونی چاہیے یار۔ کوئی دن ہو کہ جب کہا جائے آج کچھ نہیں کرنا، آج بس سانس لینی ہے اور وقت گزارنا ہے ۔۔۔ ایسا وقت آخری بار کب گزارا تھا آپ نے؟
ٹھیک ہے آپ مرد ہیں لیکن سبھی کچھ آپ نے کیوں اٹھانا ہے؟ آپ لگوا کے لائے ہوں گے لوہے کے کندھے اوپر سے، لیکن زنگ تو لوہے کو بھی لگ جاتا ہے بابا!
ایک اچھا باپ، اچھا شوہر، اچھا بیٹا، اچھا دوست، اچھا انسان بغیر پیسے کے ہونا کیسے ممکن ہے، یہ راستہ کوئی دکھا دے، میں مان جاؤں گا کہ جینڈر رول کا ظلم وغیرہ سب بے کار کی باتیں ہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ کرے، مجھے میری زندگی جینے دے!
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔