’آپ کے چہرے کی موٹیویشن کی کمی بتا رہی ہے کہ آپ کی بیوی ضرور موٹی ہوگی۔‘
یہ ایک جملہ بظاہر عام سا لگتا ہے لیکن اسے ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں سجل علی نے ادا کیا جس پر کلاس روم میں فلک شگاف ہنسی گونجی تو یہ صرف ایک جملہ نہیں رہا بلکہ ’باڈی شیمنگ‘ کا وہ خنجر بن گیا جو معاشرے کی حساسیت کے سینے میں اتارا گیا۔
درحقیقت یہ منظر صرف ایک سستا، سطحی اور بازاری طنز نہیں بلکہ پاکستانی ڈراموں کا وہ بدنما رحجان ہے جس میں صنف نازک کی جسمانی ساخت، رنگت، عمر یا پھر وزن پر طنز ناظرین کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بہرحال سنجیدہ اور باشعور طبقے نے ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کے اس ایک مکالمے پر شدید اعتراض کیا ہے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ سوال صرف لکھنے والے پر نہیں بلکہ جس نے ادا کیا اس نے بطور خاتون کیسے اسے برداشت کرلیا۔
اسی طرح ہمایوں سعید جو اپنے ہر کردار کے ذریعے سنجیدہ وقار کو پیش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں وہ ڈرامے میں ایسے مکالمے کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے صرف آنکھیں پھیر کر کسی اور طرف متوجہ ہو گئے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے اپنے طرز عمل سے اس مکالمے کی تائید کی ہے؟
ہیوی ویٹ کاسٹ، بھاری توقعات
گذشتہ ایک سال سے ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کا چرچا تھا۔ ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ قبل جب ڈرامے کا پہلا ٹیزر جاری کیا گیا تو چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں صارفین نے اس کا نظارہ کیا۔
جمعے اور ہفتے کو نشر ہونے والے ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کی کاسٹ کسی بڑی فلم سے کم نہیں۔ ہمایوں سعید، سجل علی، صائمہ نور، آصف رضا میر، سلمان شاہد، بابر علی، صنم سعید، عثمان پیرزادہ، صبا فیصل، صبا پرویز اور اذان سمیع خان اور ان سب کے عقب میں ندیم بیگ کی ہدایتکاری اور خلیل الرحمٰن قمر کی کہانی۔
ان کی موجودگی ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ کامیاب تخلیق ثابت ہوسکتی ہے۔
کہانی کی پرتیں اور نسل در نسل دشمنی
ابتدا میں ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ ’منٹو‘ نام ہونے کی وجہ سے یہ ڈراما ادبی پس منظر لیے ہوگا لیکن ٹیزر اور پھر ڈراما دیکھنے کے بعد اس خیال کو رد کرنا پڑا۔
ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کی کہانی دو ایسے خاندان کا احاطہ کرتی ہے جو دشمنی کے زہر میں ڈوبے ہیں۔
خون، ہٹ دھرمی اور انتقام کی سلگتی آگ میں جھلستی نسلیں ہیں جن کا ماضی تشدد سے داغدار اور حال ضد اور ہٹ دھرمی سے آلودہ اور مستقبل اندیشوں اورخطرات سے گھرا ہے۔
آصف رضا میر سراج امرتسری کے روپ میں ہیں جبکہ ان کے حریف بابر علی بن یامین کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان دونوں خاندان کے درمیان 70 سال سے جاری سفاک اور بے رحم دشمنی کی آگ میں جل کر اب تک دو سو سے زیادہ رشتے ختم ہوچکے ہیں۔
سراج امرتسری کی بہن کا کردار صائمہ نور کے حصے میں آیا ہے جو اپنے جواں سال بیٹوں کے خون کا بدلہ لینے کی ضد میں بن یامین سے صلح کے ہر دروازے کو بندرکھنا چاہتی ہیں۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ سراج امرتسری اور بن یامین کو شہر کے سب سے بڑے غنڈے کے روپ میں پیش کیا گیا ہے لیکن دونوں اپنے طرز عمل سے کہیں بھی اس حقیقت پر پورا نہیں اتر رہے۔
ہمایوں سعید کا منٹو یا ’دانش‘ کا سایہ
ہمایوں سعید کا کردار ایک کم گو اور نرم مزاج پروفیسر ہے، جو عدم تشدد اور انسان دوستی پر یقین رکھتا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کردار ان کے گذشتہ مشہورڈراما سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کے دانش کا تسلسل نظر آرہا ہے۔
ایک بار پھر وہی سیدھا سادہ مرد جس کی دنیا صرف اس کے نظریات کے گرد گھومتی ہے۔مگراس بار ہمایوں سعید نے سادگی اور بھولے پن کے ایک اور پائیدان کو پار کرنے کی کوشش کی ہے۔
سجل علی، دلکش مگر غیر ضروری اوور ایکٹنگ
سجل علی کا کردار شوخ، نٹ کھٹ اور حد سے زیادہ بے باک طالبہ کا ہے۔ اگرچہ وہ ان خصوصیات کو اپنی اداکاری کے ذریعے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن بیشتر مناظر میں ان کا انداز غیر فطری محسوس ہوا۔ بالخصوص سگریٹ نوشی والے منظر میں یا پھر اپنے والد سراج امرتسری کے قصے بیان کرتے ہوئے سجل علی یعنی مہمل اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آئیں۔
صائمہ نور کی غضب اداکاری
عام طور پر پاکستانی ڈراموں میں پھوپھیوں کا کردار منفی نوعیت کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے لیکن ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں صائمہ نور ایک شفیق اور مہرباں پھوپھی کے روپ میں ہیں جو اپنی بھتیجی سجل علی کے انتہائی قریب ہے۔
یہ تعلق اس قدر گہرا ہے کہ مہمل ماں کے بجائے پھوپھی کو اپنا ہم راز بنائے ہوئے ہے۔ صائمہ نور نے ثریا کے کردار میں اپنے اداکاری کے تمام تر تجربے کا بہترین انداز میں استعمال کیا ہے جن مناظر میں ان کے مکالمات نہیں وہاں صائمہ نور نے چہرے کے بنتے بگڑتے تاثرات سے غیر معمولی طور پر اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
ان کی خاموشی، آنکھوں کے تاثرات اور چہرے پر اترتی جذبات کی لہریں سب کچھ انہیں اس ڈرامے کی سب سے مضبوط کڑی بناتی ہیں۔
ندیم بیگ کے تخلیقی ہنر
ندیم بیگ کی ہدایت کاری ہمیشہ سے بصری دلکشی کی علامت رہی ہے۔ ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں بھی محلاتی گھروں، گہرے رنگوں، ڈرون شاٹس اور شاندار لائٹنگ کے ذریعے ہر منظر گویا ایک فلمی فریم بن رہا ہے۔
مگر یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھار یہ فلمی اسٹائل ڈرامے کی حقیقت سے اتنا دور ہوجاتا ہے کہ جذبات کی شدت کھو جاتی ہے۔ جیسے پہلی قسط میں زخمی کبوتر کو لے کر منٹو صاحب کا بیچ سڑک پر گاڑی چھوڑ کر بھاگنا حقیقت سے کوسوں دور منظر لگا۔ اسی طرح کئی مناظر میں مکالمات ضرورت سے زیادہ فلسفیانہ ہیں۔
تنازعات کی گونج
ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں جہاں ’باڈی شیمنگ‘ کے مکالمے پر سوال اٹھ رہے ہیں وہیں طالبہ مہمل کا اپنے استاد منٹو کی جانب دھیرے دھیرے رومانی جھکاؤ ہدف تنقید بن رہا ہے۔
بالخصوص ایسے میں جب درس گاہوں میں ہراسانی کے واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔ اس نوعیت کا مواد خطرے کی علامت ہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر کی تحریروں اور گفتگو میں خواتین کے خلاف متنازع اور نامناسب بیانیے کوئی نئی بات نہیں۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان کی تحریریں کبھی خواتین کے کردار کو آسمان کی بلندی پر پہنچا دیتی ہیں تو کبھی انہیں زمین بوس کردیتی ہیں۔ بس یہ سمجھیں کہ درمیان کی کوئی راہ نہیں ہوتی۔
جہاں ڈرامے میں خاتون کو ’موٹی‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا تو وہیں اسی ڈرامے میں باپ اور بیٹی کے درمیان ہونے والے پراثر مکالمات خواتین کی عظمت اور وقار میں اور زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔
سراج امرتسری کا بیٹی مہمل سے یہ کہنا ہے کہ ’بیٹیاں سنبھالتے ہیں ناں ہم، تو بیٹیوں سے ڈرتے ہیں اور سنبھالتے کس چیز کو ہیں، جو بہت قیمتی ہوتی ہے جس کے ٹوٹ جانے کا یا کھو جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔