وطن پرستی کی تاریخ اور قومی تشکیل

وطن پرستی کا جذبہ بہت قدیم ہے۔ ابتدا میں یہ محدود ہوتا تھا لیکن جب وقت کے ساتھ اس کی ضرورت بڑھی تو اس میں وسعت آتی چلی گئی۔

سپین کے برطانیہ پر حملے کی وجہ سے برطانوی عوام کے اندر جذبۂ حب الوطنی پیدا کر دیا (پبلک ڈومین)

وطن پرستی کا جذبہ بہت قدیم ہے۔ ابتدا میں یہ محدود ہوتا تھا لیکن جب وقت کے ساتھ اس کی ضرورت بڑھی تو اس میں وسعت آتی چلی گئی۔

وطن پرستی کے جذبے کی بنیاد پر معاشرے کے بکھرے ہوئے طبقے مل کر ایک قوم بن گئے۔ اس جذبے کو ریاست اور عوام دونوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

رافیل سیموئل کی مرتب کردہ کتاب ہسٹری اینڈ پولیٹکس میں مورخین نے برطانیہ میں وطن پرستی کے نظریے کی بنیاد پر اس کی تاریخ کا تجزیہ کیا ہے کہ کن حالات، واقعات اور حادثات کی وجہ سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

وطن پرستی اس وقت معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے جب ملک کو کسی حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں نہ صرف غیر ملکی قابض ہو جاتے ہیں اور فاتح لوٹ کھسوٹ کر کے عوام کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔

1588 میں جب سپین نے اپنا بحری بیڑا برطانیہ پر حملے کے لیے بھیجا تو اس خبر نے لوگوں میں ڈر خوف اور دہشت پیدا کر دی۔ عام لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ امڈ آیا لیکن بحری بیڑے کی تباہی نے برطانیہ کو محفوظ کر دیا۔

دوسرا اہم واقعہ جس کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں تبدیل آئی۔ وہ ریفارمیشن کے عہد میں اس کا پروٹسٹ عقیدے کو اختیار کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے کیتھولک عقیدے کو ماننے والے برطانیہ میں اقلیت بن گئے اور ان کی وطن پرستی پر شبہ ہونے لگا کیونکہ بنیادی طور پر وہ پوپ کے وفادار تھے۔ انگلستان اور کیتھولک ملکوں کے درمیان دشمنی ہو گئی۔ برطانیہ کو یہ خطرہ رہا کہ فرانس اور آئرلینڈ مل کر اس پر حملہ کریں گے۔ اس صورت میں وطن پرستی کا جذبہ تھا جو برطانیہ کی حفاظت کر سکتا تھا۔

جب فرانس میں 1789 میں انقلاب آیا تو اس نے بادشاہت اور امرا کا خاتمہ کیا اور نئی اصلاحات کے ذریعے اپنے معاشرے میں فرسودہ روایات کو ختم کیا۔ عوام میں وطن پرستی اور انقلابی جذبات کو پیدا کیا اور عام لوگوں نے یورپی حملہ آوروں کا مقابلہ کر کے اپنے ملک کا دفاع کیا۔ فرانسیسی انقلاب کا اثر برطانیہ پر بھی ہوا۔ ورکنگ کلاس کی ایک جماعت نے یہ مہم شروع کی کہ ان کے ہاں بھی انقلاب آنا چاہیے جو بادشاہت اور امرا کے طبقے کو ختم کر کے عام لوگوں کو ان کے حقوق دے۔

جب نپولین نے یورپ میں فتوحات شروع کیں تو اس کا ایک نصب العین یہ بھی تھا کہ برطانیہ پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو جائے۔

اس خبر نے لوگوں میں مختلف خیالات کو پیدا کیا۔ ورکنگ کلاس کی ایک جماعت کا کہنا تھا کہ اگر نپولین اس ملک پر قبضہ کرتا ہے تو اس سے ہم غریبوں اور مزدوروں کی حالت تو نہیں بدلے گی، تبدیلی صرف یہ ہو گی کہ عام لوگوں کو نئے آقا کا وفادار ہونا ہو گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام لوگ اپنی ریاست اور ظلم و ستم سے خوش نہ تھے۔ ان میں وطن پرستی کا جذبہ سرد ہو گیا تھا۔

کتاب کے مصنفین نے خاص طور سے برطانیہ میں ہونے والے وطن پرستی کے جذبے اور اس کے نتیجے میں قومی تشکیل پر جو دلائل دیے ہیں ان میں سے ایک اہم دلیل یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں برطانیہ کی تاریخ کو ابتدا سے لے کر موجودہ زمانے تک اس طرح بیان کیا جائے کہ جن سے اس کی بڑائی اور کارناموں کا اظہار ہو۔

آثار قدیمہ کو دریافت کر کے پرانی عمارتوں اور بستیوں کو دوبارہ سے ان کی اصلی حالت میں واپس لایا جائے۔ تاریخی اشیا کو محفوظ کیا جائے تاکہ ان کی مدد سے ماضی کے کلچر کو سامنے لایا جائے جس کی وجہ سے تہذیبی ترقی کا ارتقا واضح ہو سکے گا۔ تاریخ میں اس اہمیت کو بھی بیان کیا جائے کہ انگلش معاشرے میں ابتدا ہی سے فرض شناسی، ایمانداری اور انسانی ہمدردی کے جذبات تھے، اور وہ ہر صورت میں اپنی عزت اور وقار کو ترجیح دیتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

19ویں صدی میں یورپ میں نسل پرستی کے جذبات نے زور پکڑا۔ برطانیہ کے ایک ڈاکٹر نے یوجینکس کا نظریہ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے چار پانچ نسلوں کی بیماریوں کو دیکھا جائے۔ اگر کوئی بیماری ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے تو اس صورت میں شادی سے پرہیز کیا جائے۔

یوجینکس کے نظریے کو جرمنی، امریکہ اور سکینڈے نیوین کے ممالک نے بھی محدود پیمانے پر اختیار کیا۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کا معائنہ کیا جاتا تھا کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا تو نہیں اگر وہ صحت مند نہیں ہوتا تھا تو اس صورت میں ڈاکٹر خاموشی سے اسے مار دیتے تھے۔ ماں باپ کو یہ اطلاع دیتے تھے کہ ان کا بچہ بیماری کی وجہ سے فوت ہو گیا ہے۔ یوجینک کے تحت منصوبہ یہ تھا کہ ایک صحت مند نسل کو تیار کیا جائے لیکن جب اس کے بارے میں لوگوں کو خبر ہوئی تو اس پر سخت احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ ختم ہو گیا۔

برطانیہ میں وطن پرستی کا جذبہ اس وقت شدت کے ساتھ ابھرا جب اس نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیاں بنائیں۔ کالونیوں کے قیام میں عام برطانوی فوجی شامل تھے لیکن جب وہ فاتح ہو کر کسی ایشیا اور افریقہ کے ملک میں جاتے تھے تو ان کا سماجی درجہ بڑھ جاتا تھا۔ وہ خود کو فاتح سمجھ کر مقبوضہ کالونیوں کے لوگوں کو کمتر اور غیر مہذب شمار کرتے تھے۔

برطانوی عوام نے بھی ان کالونیوں میں عوام پر جو مظالم ہوتے تھے ان کی حمایت کی۔ 1857 کی جنگ آزادی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی فاتح ہوئی تو اس نے ہزاروں لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے پھانسیاں دیں۔ توپ سے باندھ کر انہیں اڑایا گیا اور فضا میں ان کے جسم کے ٹکڑے بکھر گئے۔ مغل شہزادوں کے قتل پر فخر کا اظہار کیا گیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جب جنرل ڈائر نے امرتسر میں جلیاں والے باغ کے ایک جلسے میں لوگوں کا قتل عام کیا تو برطانیہ کی پبلک نے اس کے لیے چندہ جمع کر کے اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ وطن پرستی کو حکمران طبقے نے اپنے فوجی اور سیاسی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے ذہن کوبدلا۔ ایک جانب اس نے حکمرانوں کو تحفظ دیا اور عام لوگوں کو جھوٹی شان و شوکت کے خواب دکھا کر ان کی مفلسی اور غربت کو ختم کیے بغیر انکی حمایت حاصل کی۔ لہٰذا وطن پرستی کا جذبہ ہمیشہ اشرافیہ کے مفاد میں ہوتا ہے۔

اس تناظر میں جب ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں بھی حکمران طبقے میڈیا کے ذریعے ترانوں اور گیتوں کے ذریعے جوشیلی تقریروں کے ذریعے وطن پرستی کی تقریر کرتے ہیں۔ عوام سے قربانی چاہتے ہیں مگر ان کی غربت اور مفلسی کو ختم کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ