’صرف ایک انسان‘ میں پائے جانے والا دنیا کا نایاب ترین بلڈ گروپ دریافت

فرانس کے سائنس دانوں نے ایک عام سے خون کے ٹیسٹ کے دوران غیر معمولی دریافت کرتے ہوئے دنیا کا نیا اور نایاب ترین بلڈ گروپ دریافت کر لیا۔

بلڈ گروپ ’گودا نیگیٹو‘ کی دریافت اس وقت ہوئی جب ایک خاتون کے خون کے پلازما نے ہر ممکنہ ڈونر کے خون کے نمونے کے خلاف ردعمل ظاہر کیا(اینواتو)

فرانس کے سائنس دانوں نے ایک عام سے خون کے ٹیسٹ کے دوران غیر معمولی دریافت کرتے ہوئے دنیا کا نیا اور نایاب ترین بلڈ گروپ دریافت کر لیا۔

اس بلڈ گروپ کی واحد معلوم حامل ایک خاتون ہیں جن کا تعلق گوادلوپ سے ہے اور ان کا خون اس قدر منفرد ہے کہ ڈاکٹر ان کے لیے ایک بھی موزوں عطیہ دہندہ تلاش نہیں کر پائے۔

48 ویں تسلیم شدہ بلڈ گروپ ’گودا نیگیٹو‘ کی دریافت اس وقت ہوئی جب مذکورہ خاتون کے خون کے پلازما نے ہر ممکنہ ڈونر کے خون کے نمونے کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔

یہاں تک کہ ان کے اپنے بہن بھائیوں کے نمونے بھی رد ہو گئے۔ نتیجتاً، ان کے لیے خون کا کوئی بھی موزوں ڈونر تلاش کرنا ناممکن ہو گیا۔

زیادہ تر لوگ اپنے خون کا گروپ جانتے ہیں یعنی اے، بی، اے بی یا او اور یہ بھی کہ وہ آر ایچ پازیٹو ہیں یا نیگیٹو۔

تاہم خون کی یہ عام اور معروف قسمیں (یہ حروف اور ان کے ساتھ ’پازیٹو‘ یا ’نیگیٹو‘) دراصل خون کے کئی درجن گروپ نظاموں میں سے صرف دو نظاموں کی نمائندگی کرتی ہیں جو انتقال خون کے لیے موزونیت کا تعین کرتے ہیں۔

ہر بلڈ گروپ سسٹم دراصل ہمارے سرخ خلیوں کی سطح پر پائے جانے والی پروٹین اور نشاستے میں معمولی لیکن انتہائی اہم فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

گوادلوپ سے تعلق رکھنے والی خاتون کے خون میں پائی گئی عدم مطابقت کی پراسرار وجہ جاننے کے لیے سائنس دانوں نے جدید ترین جینیاتی تجزیے سے مدد لی۔

انہوں نے ’ہول ایگزوم سیکوینسنگ‘ جو 20 ہزار سے زائد انسانی جینز کا معائنہ کرنے والی تکنیک ہے، کا استعمال کرتے ہوئے پی آئی جی زیڈ کہلانے والے جین میں تبدیلی دریافت کی۔

یہ جین ایک ایسے انزائم کو پیدا کرتا ہے جو خلیوں کی جھلی پر موجود ایک اہم مالیکیول میں مخصوص نشاستے کا اضافہ کرتا ہے۔

اس نشاستے کی غیر موجودگی سے سرخ خلیوں کی سطح پر پائے جانے والے مالیکیول کی ساخت بدل جاتی ہے۔

اس تبدیلی سے ایک نیا مولیکیول جین وجود میں آتا ہے جو کسی بھی بلڈ گروپ کا بتعین کرنے والا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔

یوں خون کی درجہ بندی کا بالکل نیا نظام تشکیل پاتا ہے یعنی ’گوآدا پازیٹو‘ (جس میں یہ مالیکیول موجود ہوتا ہے) یا ’گودا نیگیٹو‘ (جس میں یہ مالیکیول موجود نہیں ہوتا۔)

سائنس دانوں کی ٹیم نے جین میں تبدیلی کی ٹیکنالوجی کے ذریعے تجربہ گاہ میں اسی میوٹیشن کو دوبارہ تخلیق کر کے اپنی دریافت کی تصدیق کی۔

اس طرح اب تک ٹیسٹ کیے گئے خون کے تمام نمونے عطیہ کرنے والوں کے سرخ خلیے گودا پازیٹو ہیں جب کہ گوادلوپ سے تعلق رکھنے والی یہ مریضہ دنیا کی واحد معلوم شخصیت ہیں جن کا خون گودا نیگیٹو ہے۔

اس دریافت کے مضمرات صرف خون کے انتقال تک محدود نہیں۔ یہ مریضہ معمولی ذہنی معذوری کا شکار ہیں، اور افسوس ناک طور پر ان کے دو بچے پیدائش کے وقت انتقال کر گئے۔

یہ مسائل ممکنہ طور پر ان میں پائی جانے والی اس نایاب جینیاتی تبدیلی سے منسلک ہو سکتے ہیں۔

پی آئی جی زیڈ جین سے پیدا ہونے والا انزائم ایک پیچیدہ مالیکیول جی پی آئی (گلائی کوسل فاسفے ٹڈائل اینوسیٹول) کی تیاری کے آخری مرحلے میں کام کرتا ہے۔

قبل ازیں ہونے والی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جی پی آئی کی تیاری کے لیے درکار دیگر انزائمز میں خرابی کے حامل افراد کو اعصابی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، جن میں نشوونما میں تاخیر سے لے کر دورے پڑنے تک کی علامات شامل ہیں۔ اسی طرح ان موروثی عوارض میں مبتلا خواتین کے ہاں مردہ بچوں کی پیدائش بھی عام ہے۔

اگرچہ کیریبین کی یہ مریضہ دنیا کی واحد شخصیت ہیں جن میں یہ نایاب بلڈ گروپ پایا گیا لیکن جی پی آئی کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں درکار انزائمز کی خرابی کے حامل دیگر افراد میں بھی اعصابی مسائل دیکھے گئے ہیں، جن میں نشوونما میں تاخیر، ذہنی کمزوری اور دورے شامل ہیں۔

گوادا کی دریافت انسانی جینیاتی تنوع کے عجائبات اور پیچیدگیوں دونوں کو اجاگر کرتی ہے۔

بلڈ گروپس کی ارتقا جزوی طور پر متعدی بیماریوں سے تحفظ کے طور پر ہوئی کیوں کہ بہت سے بیکٹیریا، وائرس اور پیراسائٹس خون کے گروپ سے متعلق مالیکیولز کو خلیوں میں داخل ہونے کے راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا بلڈ گروپ بعض بیماریوں کے خلاف آپ کی حساسیت یا مدافعت کو متاثر کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن غیر معمولی حد تک نایابی طبی مسائل کو جنم دیتی ہے۔

فرانسیسی محققین تسلیم کرتے ہیں کہ اگر گوآدا سے غیر مطابقت رکھنے والا خون گوادلوپ کی اس خاتون کو دیا جائے تو کیا ردعمل ہوگا، اس کی پیشگوئی ممکن نہیں۔

حتیٰ کہ اگر دنیا میں اور بھی گوآدا نیگیٹو افراد موجود ہوں، تو انہیں تلاش کرنا بے حد مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی واضح نہیں کہ وہ خون عطیہ کرنے کے قابل ہوں گے یا نہیں۔

یہ حقیقت ایک مستقبل کے حل کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی تجربہ گاہ میں تیار کردہ خون کے خلیے۔

سائنس دان پہلے ہی سٹیم سیلز سے سرخ خون کے خلیے تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں، جنہیں جینیاتی طور پر تبدیل کر کے نہایت نایاب بلڈ گروپس سے ہم آہنگ بنایا جا سکتا ہے۔

گوآدا کے معاملے میں محققین پی آئی جی زیڈ جین میں تبدیلی کر کے مصنوعی طور پر گوآدا نیگیٹو خون کے سرخ خلیے تیار کر سکتے ہیں۔

پھیلتا ہوا میدان

گوآدا اب ان 47 دیگر بلڈ گروپ سسٹمز میں شامل ہو چکا ہے جنہیں انٹرنیشنل سوسائٹی آف بلڈ ٹرانسفیوژن نے تسلیم کر رکھا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر بلڈ گروپ سسٹمز کی طرح، یہ بھی ایک سپتال کی تجربہ گاہ میں دریافت ہوا، جہاں ٹیکنیشنز ایک مریض کے لیے موزوں خون تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس نام میں اس معاملے کی کیریبین شناخت جھلکتی ہے۔ گوآدا گوادلوپ کے باشندوں کے لیے بولی جانے والی عام اصطلاح ہے، جس کی وجہ سے اس بلڈ گروپ کو سائنسی اہمیت کے ساتھ ساتھ ثقافتی معنویت بھی حاصل ہو گئی۔

جیسے جیسے جینیاتی تجزیہ مزید جدید اور عام ہوتا جا رہا ہے، محققین کو توقع ہے کہ مزید نایاب بلڈ گروپس سامنے آئیں گے۔

ہر نئی دریافت انسانی تنوع کی ہماری سمجھ کو وسعت دیتی ہے اور خون کی منتقلی سمیت دیگر ذاتی نوعیت کے علاج کے معاملے میں نئی مشکلات پیدا کرتی ہے۔

مارٹن ایل اولسن نوردک ریفرنس لیبارٹری فار بلڈ گروپ جینومکس، ریجن سکانے میں میڈیکل ڈائریکٹر اور لُنڈ یونیورسٹی میں ٹرانسفیوژن میڈیسن کے پروفیسر اور ڈویژن کے سربراہ ہیں۔

جل سٹوری لُنڈ یونیورسٹی کے ڈویژن آف ٹرانسفیوژن میڈیسن میں ایڈجَنکٹ پروفیسر ہیں۔

 

یہ مضمون ابتدائی طور پر دا کنورسیشن میں شائع ہوا اور اسے کری ایٹیو کامنز لائسنس کے تحت دوبارہ شائع کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس