امریکی ریاست وسکونسن کے رہائشی ٹم فریڈ کو زہریلے جانداروں سے ہمیشہ سے بے حد دلچسپی رہی ہے۔ وہ سانپوں کے کاٹنے سے محفوظ رہنے کی قوت مدافعت حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں مرتبہ سانپ سے ڈسے جا چکے ہیں۔
انہوں نے زیادہ تر اپنی مرضی سے خود کو سانپ سے ڈسوایا۔
اب سائنس دان ان کے خون پر تحقیق کر رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس تحقیق سے سانپ کے کاٹے کا زیادہ مؤثر علاج دریافت ہو سکے گا۔
ٹم فریڈ کے اس غیر معمولی سفر کا آغاز بچھوؤں اور مکڑیوں کا زہر نکالنے کے مشغلے سے ہوا۔ انہوں نے گھر میں کئی قسم کے سانپ پال رکھے تھے اور ’محض تجسس‘ اور خود کو محفوظ بنانے کی خواہش کے تحت انہوں نے خود کو سانپ کے زہر کے ہلکے محلول کے ٹیکے لگانا شروع کیے۔
پھر آہستہ آہستہ زہر کی مقدار بڑھاتے گئے اور بالآخر خود کو سانپوں سے براہِ راست ڈسوانے لگے اور یوں وہ اپنے خود ساختہ تجربے کی حدیں مزید آگے بڑھاتے رہے۔
ان کے اس غیرروایتی طریقے نے سائنس دانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی جو اب ٹم فریڈ کے خون کا تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ اس کی مدد سے سانپ کے کاٹے کے علاج کے لیے بہتر اور مؤثر دوا تیار کیا جا سکی۔
انہوں نے بتایا: ’شروع شروع میں تو بہت ڈر لگتا تھا، مگر جتنی بار ایسا کرتے ہیں، اتنی ہی عادت پڑتی جاتی ہے اور اتنے ہی آپ پرسکون ہوتے جاتے ہیں۔‘
کوئی بھی ڈاکٹر یا طبی عملے کا رکن، بلکہ عام انسان بھی، کبھی یہ مشورہ نہیں دے گا کہ ایسا کرنا ذرا بھی عقل مندی ہے، تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ فریڈ کا طریقہ انسانی جسم کے کام کرنے کے انداز سے مطابقت رکھتا ہے۔
جب ہمارا مدافعتی نظام سانپ کے زہر سے متعارف ہوتا ہے تو وہ ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے جو اس زہر کو بےاثر کر سکتے ہیں۔ اگر زہر کی مقدار کم ہو تو جسم اس کے اثرات پر قابو پا لیتا ہے اور اگر یہ وہ زہر ہو جس کا سامنا جسم پہلے بھی کر چکا ہے تو مدافعتی نظام مزید تیزی سے ردعمل ظاہر کرتا ہے اور نسبتاً زیادہ مقدار برداشت کر سکتا ہے۔
ٹم فریڈ تقریباً دو دہائیوں سے سانپ کے کاٹے اور زہر کے ٹیکے برداشت کر رہے ہیں اور آج بھی ان کا فریج مختلف قسم کے زہروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں اپنے بازوؤں پر بلیک مامبا، تائی پان اور واٹر کوبرا کے کاٹنے سے بننے والے سوجے ہوئے زخموں کے نشان دکھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’میں اپنی حدوں کو موت کے اتنے قریب تک لے جانا چاہتا تھا جہاں میں بالکل موت کے کنارے پر پہنچ کر پھر واپس لوٹ آؤں۔‘
لیکن فریڈ دوسروں کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہر اس سائنس دان کو ای میل کی جن کا انہیں پتہ چل سکا اور درخواست کی کہ ان کے جسم میں پیدا ہونے والی اس مدافعت کا مطالعہ کریں۔
سانپ کے کاٹے کے علاج کی ضرورت بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً ایک لاکھ 10ہزار لوگ سانپ کے کاٹے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سانپ کے زہر کا توڑ تیار کرنا مہنگا اور مشکل عمل ہے۔ یہ دوا عام طور پر گھوڑے جیسے بڑے جانوروں کو زہر کے ٹیکے لگا کر بنائی جاتی ہے، جن کے جسم سے اینٹی باڈیز حاصل کی جاتی ہیں۔
ایسے اینٹی وینم عام طور پر مخصوص سانپوں کے زہر کے خلاف ہی کارآمد ہوتے ہیں اور جانوروں سے حاصل شدہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار انسانی جسم میں منفی ردعمل بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کولمبیا یونیورسٹی کے پیٹر کوانگ کو جب فریڈ کے بارے میں پتا چلا تو اُن کا ردِعمل تھا کہ ’واہ، یہ تو بہت ہی غیر معمولی بات ہے۔ ہمارے پاس ایک بہت خاص شخص موجود ہے جس نے 18 سال میں زبردست اینٹی باڈیز پیدا کر لی ہیں۔‘
جمعے کو جریدے ’سیل‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں، کوانگ اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ فریڈ کے منفرد خون کی مدد سے کیا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے ایسی دو اینٹی باڈیز کی نشان دہی کی جو کئی اقسام کے سانپوں کے زہر کو بےاثر کر سکتی ہیں۔ مستقبل میں اس تحقیق کا مقصد ایک ایسا علاج تیار کرنا ہے جو وسیع پیمانے پر کئی سانپوں کے خلاف مؤثر تحفظ فراہم کر سکے۔
تاہم یہ ابھی ابتدائی مرحلے کی تحقیق ہے۔ تجرباتی اینٹی وینم کو اب تک صرف چوہوں پر آزمایا گیا ہے اور انسانوں پر اس کے تجربات میں ابھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ اینٹی وینم مامبا اور کوبرا قسم کے سانپوں کے خلاف تو کارآمد دکھائی دیتا ہے مگر افعی نسل کے سانپوں جیسے کہ ریٹلرز کے خلاف مؤثر نہیں۔
لیورپول سکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے نکولس کیسویل، جو سانپ کے کاٹے پر تحقیق کر رہے ہیں مگر حالیہ تحقیق کا حصہ نہیں، نے ایک ای میل میں کہا کہ ’امید افزا نتائج کے باوجود ابھی بہت کام باقی ہے۔‘
ٹم فریڈ کا یہ سفر مسائل سے پاک نہیں۔ ان کے بقول ایک مرتبہ سانپ کے شدید کاٹنے کی وجہ سے انہیں اپنی انگلی کا کچھ حصہ کاٹنا پڑ گیا۔ اس کے علاوہ خاص طور پر خوفناک کوبرا سانپ کے ڈسنے کے بعد انہیں ہسپتال بھی جانا پڑا۔
اب فریڈ ایک کمپنی ’سینٹی ویکس‘ میں ملازمت کرتے ہیں جو اینٹی وینم تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں خوشی ہے کہ ان کی 18 سالہ جدوجہد کسی دن سانپ کے کاٹے کی صورت میں لوگوں کی جانیں بچا سکتی ہے۔
مگر ان لوگوں کے لیے جو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں، فریڈ کا پیغام بہت واضح ہے: ’ایسا مت کریں۔‘
© The Independent