اسلام آباد کے مضافاتی گاؤں کی رہائشی رضیہ (فرضی نام) اس سال جولائی کی ایک شام کچی بستی سے دور پانی لینے جاتی ہیں اور جھاڑیوں میں سے گزرتے ہوئے ان کی ٹانگ پر کوئی چیز کاٹ لیتی ہے، جس سے انہیں شدید درد کا احساس ہوتا ہے۔
رات کے دوران درد پوری ٹانگ میں پھیل جاتا ہے، زخم بڑا ہو جاتا ہے اور اس سے پانی بھی رسنا شروع ہو جاتا ہے۔
سات بچوں کی ماں رضیہ، جو قریبی سیکٹر میں گھریلو ملازمہ ہیں، کی مالکن انہیں بتاتی ہیں کہ یہ سانپ کے کاٹے کا زخم ہے۔ وہ انہیں قریبی ہسپتال جانے کا مشورہ دیتی ہیں، جہاں دو تین دن علاج کے بعد بھی افاقہ نہیں ہو پاتا۔
ڈاکٹر رضیہ کو اسلام آباد کی پمز ہسپتال بھیجا جاتا ہے، جہاں انہیں سانپ کے زہر کے ٹیکے لگتے ہیں اور وہ چند ہی روز میں صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آتی ہیں۔
اسی بستی کی زینب (فرضی نام) کو بھی سانپ کاٹتا ہے، لیکن وہ قریبی ہسپتال سے علاج کروانے کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے زہر سارے جسم میں پھیل کر ان کی موت کا باعث بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زینب کی چھوٹی بہن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اگر میری بہن کو فوراً پمز لے جایا جاتا تو اسے سانپ کے زہر کے ٹیکے لگ جاتے اور شاید اس کی جان بچ جاتی۔‘
اسلام آباد میں قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی سیرا پروسسیسنگ لیب کے سربراہ حسن احمد خان کے مطابق ’زہریلے سانپ کے کاٹے کا واحد علاج تریاق کا ٹیکہ لگانا ہے۔‘
سانپ کے زہر کا تریاق قومی ادارہ صحت میں تیار کیا جاتا ہے۔
19 ستمبرہر سال دنیا میں سانپوں، ان کے زہر اور ان کے کاٹنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی پھیلانے کی غرض سے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ کے مطابق: ’سانپ کے کاٹنے کی حکمت عملی ایک نظامی اور کثیر الضابطہ نقطہ نظر کا تقاضا کرتی ہے، جو علاج کو بہتر اور صحت کے نظام کو مضبوط بنانے، کمیونٹیز کو شامل کرنے، شراکت داری کی تعمیر اور وسائل کو متحرک کرنے پر مرکوز ہے۔ 2019 میں شروع ہونے والی اس حکمت عملی سے سانپ کے کاٹنے سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مزید سیاسی، مالی اور مجموعی طور پر کوششوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔‘
سانپ کے کاٹے سے اموات
عالمی ادارہ صحت نے سانپ کے کاٹنے کو صحت کا ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا ہے، جس سے صرف پاکستان میں ہر سال 40 ہزار افراد متاثر ہوتے، جن میں سے 8200 جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی عالمی اموات میں سے تقریباً 70 فیصد جنوبی ایشیا میں واقع ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 54 لاکھ انسان سانپ کے کاٹنے سے متاثر ہوتے ہیں، جب کہ شرح اموات ایک لاکھ 38 ہزار سالانہ ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں سانپ کے کاٹنے سے سب سے زیادہ اموات صوبہ سندھ میں ہوتی ہیں، خصوصاً صحرائے تھر میں، جہاں دیہات میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور کھیتوں میں کام کرنے کے باعث ایسے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر پر نظر رکھنے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زرعی طریقوں میں اضافہ اور کم سماجی اقتصادی حیثیت سانپ اور انسان کے باہمی تعامل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
سانپ کے کاٹنے کے واقعات زیادہ تر گرم موسم اور برسات میں ہوتے ہیں، جب سانپ زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔
قومی ادارہ صحت میں پرنسپل سائینٹیفک آفیسر ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ سانپ یا کوئی بھی دوسرا جانور بغیر کسی وجہ کے انسان پر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر واقعات میں انسان اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
’انسان آبادیاں بڑھا کر سانپ سمیت دوسرے جانوروں کی حدود (Space) میں گھستا ہے اور یہ عمل انہیں مشتعل کرنے کا باعث بنتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حملہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سیلاب کی صورت میں ہر قسم کے جانوروں خصوصاً سانپوں کی پناہ گاہوں میں پانی گھس جاتا ہے اور وہ باہر نکل کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق دیہی آبادیوں میں اکثر سانپ کے کاٹنے کی اطلاع نہیں دی جاتی اور اسی لیے سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔
فی الحال پاکستان کے دیہی علاقوں میں، خاص طور پر سانپوں سے ہونے والی اموات کے حوالے سے محدود اعداد و شمار موجود ہیں۔
سانپ کے زہر کا تریاق
قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر حسن احمد خان کے مطابق سانپ کے زہر کا واحد علاج دوائی کا ٹیکہ (پولی ویلنٹ اینٹی وینم) ہے، جو پاکستان میں صرف این آئی ایچ میں تیار کیا جاتا ہے۔
یہ دوائی پاکستان میں پائے جانے والے سب زہریلے ساپنوں کے زہر کا تریاق ہے۔
قومی ادارہ صحت میں تیار کی جانے والی اس دوائی کے کئی متبادل نجی کمپنیاں بیرون ملک سے بھی درآمد کرتی ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے حسن احمد خان کا دعویٰ ہے کہ این آئی ایچ کا تریاق بیرون ملک سے منگوائی گئی دوائیوں سے زیادہ مؤثرثابت ہوتا ہے۔
’ہماری دوائی کے محض دو انجیکشن بھی سانپ کے زہر کا اثر زائل کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، جب کہ غیر ملکی پراڈکٹ کے 10، 10 انجیکشن لگانا پڑتے ہیں۔‘
تریاق بنانے کا طریقہ
تریاق بنانے کے عمل میں سب سے قبل این آئی ایچ کی سیرا لیب کے تحت رکھے گئے سانپوں کا زہر اکٹھا کیا جاتا ہے، جسے لیبارٹری میں ٹھنڈا کر کے سفوف کی شکل دی جاتی ہے اور اس کی چھوٹی چھوٹی خوراکیں بنائی جاتی ہیں۔
زہر کے سفوف کی یہ خوراکیں وقفوں وقفوں سے گھوڑوں کے جسم میں انجیکشن کے ذریعے داخل کی جاتی ہیں۔
زہر کے خون میں شامل ہوتے ہی گھوڑے کا مدافعتی نظام اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتا ہے اور مخصوص مقدار پہنچنے پر گھوڑے کا خون نکالا جاتا ہے۔
لیبارٹری میں ایک پیچیدہ اور طویل عمل کے ذریعے گھوڑے کے خون سے ان اینٹی باڈیز کو الگ کر کے انہیں تریاق میں تبدیل کرکے شیشے کی چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سانپ
ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان میں سانپوں کی کل 72 اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں 40 زہریلی ہیں۔
زہریلے سانپ سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ اس کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کی موت واقع ہو بلکہ محض کچھ دیر کے لیے زخم کے ارد گرد یا جسم میں خارش یا درد یا کوئی دوسری معمولی تکلیف ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں میں چار سب سے زیادہ زہریلے ہیں اور انہیں ’بگ فور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سانپوں کے کاٹنے سے بروقت علاج نہ ملنے کی صورت میں انسانی جان کے ضائع ہونے کا امکان موجود ہوتا ہے۔
بگ فور میں کامن کریٹ (Common Krait)، سا۔ سکیلڈ وائپر(Saw-Scaled Viper)، رسلز وائپر (Russel's Viper) اور انڈین کوبرا (Indian Cobra) شامل ہیں۔
رسلز وائپر
رسلز وائپر انتہائی زہریلا سانپ ہے، جو پاکستان اور انڈیا سے تائیوان اور جاوا تک پایا جاتا ہے۔ یہ اکثر کھلے علاقوں میں رہتا ہے۔
یہ دنیا بھر میں سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ یہ اکثر کھیتوں میں موجود ہوتا ہے، جہاں اسے شکار آسانی سے مل جاتا ہے اور انسانوں سے رابطے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔
وائپر کا جسم زیادہ سے زیادہ تقریباً ڈیڑھ میٹر یا پانچ فٹ تک طویل ہوتا ہے اور اس کے جسم پر سیاہ اور سفید دائروں کے ساتھ سرخی مائل بھورے دھبوں کی تین قطاریں پائی جاتی ہیں۔
وائپر کی ایک قسم کی مادہ ایک وقت میں 25 بچوں کو جنم دیتی ہے۔
سائنسی تحقیقی مقالے چھاپنے والے برطانوی پلیٹ ’فارم ٹیلز اینڈ فرانسز‘ میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق رسلز وائپر سانپوں کے زہر میں خون کو پتلا کرنے والی پروٹین پائی جاتی ہے، جو ہیموگلوبن اور پلیٹ لیٹس کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔
این آئی ایچ کے ڈاکٹر حسن کے مطابق اس سانپ کا زہر انسانی خون کو پتلا کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے متاثر ہونے والے شخص کے کان، ناک اور آنکھوں سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔
سا۔ سکیلڈ وائپر
اس سانپ کو عام زبان میں جلیبی سانپ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے جسم کو کوائل کی شکل میں لپیٹ سکتا ہے۔
ڈاکٹر حسن کا کہنا ہے کہ اس سانپ کا زہر بھی انسانی خون کو پتلا کر دیتا ہے اور متاثرہ شخص کے جسم کے مختلف حصوں سے خون رِسنا شروع ہو جاتا ہے۔
سا۔ سکیلڈ وائپر چھوٹے زہریلے سانپوں کی آٹھ اقسام میں سے ایک ہے، جو افریقہ، جزیرہ نما عرب اور جنوب مغربی ایشیا سے انڈیا، پاکستان اور سری لنکا تک خط استوا کے شمال میں خشک علاقوں میں ملتا ہے۔
اس سانپ کا جسم مضبوط اور سر ناشپاتی کے سائز کا ہوتا ہے، جو 0.3 سے 0.9 میٹر (ایک سے تین فٹ) تک طویل ہو سکتا ہے۔
اس کی رنگت میں گہرے دھبوں اور پس منظر کے دھبوں کے ساتھ بھورے، سرمئی، یا نارنجی رنگ کے مختلف شیڈز پائے جاتے ہیں۔
یہ سانپ سیدھا ہونے کے بجائے اپنے جسم کو اطراف میں حرکت دیتے ہیں اور عموماً راتوں کو دیکھنے میں آتے ہیں، جب کہ ان کی خوراک میں پرندے، چھپکلی اور مینڈک وغیرہ شامل ہیں۔
کامن کریٹ
کامن کریٹ برصغیر کا ایک انتہائی زہریلا سانپ ہے اور ’بگ فورز‘ کا رکن ہے۔ یہ بنگلہ دیش اور انڈیا میں انسانوں کو سب سے زیادہ کاٹنے والا سانپ سمجھا جاتا ہے۔
اس سانپ کا رنگ عام طور پر نیلا یا سیاہ ہوتا ہے، جب کہ اس کے جسم کے گرد تقریباً 40 سفید دائرے دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ سانپ صوبہ سندھ سے انڈین ریاست مغربی بنگال، پورے جنوبی انڈیا اور سری لنکا میں پائے جاتے ہیں جب کہ یہ افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
یہ سانپ مختلف قسم کی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں، جن میں کھیتوں اور کم جھاڑی والے جنگل، نیم صحرائی، چٹانی علاقے، کاشت کی گئی زمین، مضافاتی باغات اور آباد علاقے شامل ہیں۔
یہ دیمک کے ٹیلوں، اینٹوں کے ڈھیروں، چوہوں کے سوراخوں اور یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی آرام کرتے ہیں۔ کامن کریٹس اکثر پانی میں یا پانی کے منبع کے قریب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن کے مطابق اس سانپ کا زۃر انسان کے اعصابی نظام کو اثر انداز کرتا ہے، جس سے مختلف اعضا مفلوج ہو سکتے ہیں۔
انڈین کوبرا
انڈین کوبرا انتہائی زہریلے سانپ کی ایک قسم ہے، جو انڈیا کے علاوہ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں بھی پایا جاتا ہے۔
یہ جنگلوں اور کھیتوں کے علاوہ آبادیوں میں بھی رہتا ہے اور خوراک کے طور پر چوہے، مینڈک، پرندے، چھپکلی اور دوسرے سانپوں کو بھی کھاتا ہے۔ یہ شکار کو کاٹ کر مفلوج کرتا ہے اور اسے پورا نگل لیتا ہے۔
تقریباً 20 سے 30 سال تک زندہ رہنے والے انڈین کوبرا کی لمبائی عام طور پر ایک سے ڈیڑھ میٹر (3.3 سے 4.9 فٹ) ہوتی ہے۔
این آئی ایچ میں ہر سال تریاق کے ایک لاکھ ٹیکے تیار کیے جاتے ہیں، جن سے رضیہ جیسے ہزاروں پاکستانی شہری مستفید ہوتے ہیں۔
تاہم زینب کی بہن جیسے بہت سے پاکستانی سانپ کے زہر کا ٹیکہ نہ ملنے کے باعث موت کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اسی لیے این آئی ایچ اپنی پیداوار کو دگنا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔