محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اب پاسپورٹ پر والد کے نام کے ساتھ ساتھ والدہ کا نام بھی لکھا جائے گا۔
محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ فیصلہ بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا کیونکہ چھوٹے بچوں کی امیگریشن کے وقت شناخت کے مسائل ہوتے ہیں، جس میں والد اور والدہ دونوں کی مرضی چاہیے ہوتی ہے، اس لیے والدہ کا نام بھی پاسپورٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
’اس کے علاوہ اس کا مقصد ان خواتین کو سہولت دینا ہے، جو کسی نہ کسی وجہ سے بچوں کی پرورش اکیلے کر رہی ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق: ’یہ نئی پالیسی نئے بننے والے پاسپورٹس پر لاگو ہو گی، لیکن جو پاسپورٹ بن چکے ہیں وہ اپنی مدت پوری ہونے تک استعمال کیے جاسکیں گے لیکن اگر کوئی اپ ڈیٹ کرنا چاہ رہا ہے تو وہ نیا پاسپورٹ بھی بنوا سکتا ہے۔‘
مریم (فرضی نام کیونکہ خاتون اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں) ایک سنگل مدر ہیں اور پاسپورٹ پر والدہ کا نام درج کیے جانے کے فیصلے سے کافی مطمئن ہیں۔
مریم اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر چکی ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔ دو بیٹیاں تو والد کے ساتھ رہتی ہیں لیکن بیٹا ان کے ساتھ رہتا ہے۔
بطور سنگل مدر انہیں بیٹے کی شناخت کے لیے کئی جگہوں پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مریم نے بتایا کہ گذشتہ برس انہوں نے اپنے بیٹے کا پاسپورٹ بنوایا: ’میں ہی جانتی ہوں کہ مجھے کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آپ اکیلے پاسپورٹ بنوانے نہیں جا سکتے، آپ کو عدالت کی طرف سے ایک آرڈر چاہیے ہوتا ہے کہ والد نے این او سی دے دیا ہے اور آپ جا کر پاسپورٹ بنوا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پاسپورٹ پر گھر کے پتے کا بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اگر بچہ والدہ کے ساتھ رہ رہا ہے تو والد کے گھر کا پتہ ہی لکھا جائے گا اور والدہ کے شناختی کارڈ پر بھی شوہر کا نام درج ہونا چاہیے۔‘
مریم کہتی ہیں کہ پاسپورٹ پر والدہ کے نام کا اندراج ایک اچھا اقدام ہے، اس سے کافی چیزیں بہتر ہو جائیں گی اور سنگل مدرز کے لیے آسانی ہو جائے گی۔
بقول مریم: ’مسائل یہاں ختم نہیں ہوتے بلکہ اگر آپ نے کہیں ملک سے باہر سفر کرنا ہے تو وہاں بھی آپ بچے کو تب تک باہر نہیں لے جا سکتے جب تک آپ کے پاس ایک گارڈین شپ لیٹر نہ ہو۔ عدالت آپ کو ایک اجازت نامہ دیتی ہے، جس پر ملک سے باہر جانے اور واپس آنے کی تاریخ اور وقت تک درج کیا جاتا ہے۔
’اگر آپ سنگل مدر ہیں تو سمجھیں کہ آپ مفلوج ہیں۔ آپ بچے کے ساتھ اکیلے ملک سے باہر سفر نہیں کر سکتے اور اگر آپ کے پاس سب دستاویزات ہیں، تب بھی امیگریشن پر آپ کو تنگ کیا جاتا ہے اور صرف یہیں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی امیگریشن پر تنگ کیا جاتا ہے اور سوال کیے جاتے ہیں کہ بچے کے والد کدھر ہیں، لیکن یہ سوالات پاکستان میں بہت زیادہ کیے جاتے ہیں۔‘
مریم کے خیال میں پاسپورٹ پر والدہ کے نام کا اندراج ایک حد تک سکھ کا ایک سانس ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے مزید سٹریم لائن ہونا چاہیے۔ ’جیسے نادرہ نے کافی ریلیف دیا تھا کہ انہوں نے والدہ کے نام سے فیملی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (ایف آر سی) جاری کرنا شروع کر دیے تھے اور اس میں والد کا ہونا ضروری نہیں تھا، اسی طرح اگر سفر کے لیے بھی ایسی کوئی چیز نکال دی جائے کہ پاسپورٹ پر ہی لکھ دیا جائے کہ والدہ سنگل پیرنٹ ہیں اور انہیں سفر کی اجازت ہے۔ بے شک بچے کی تحویل کسی کے پاس ہو لیکن اسے والدین میں سے کسی کی بھی اجازت کے بغیر کسی ایک کے ساتھ سفر کی سہولت ہونی چاہیے۔‘
عروسہ عدنان ایک بیٹی کی والدہ ہیں اور ملازمت کرتی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا اقدام ہے کہ پاسپورٹ پر والدہ کا نام بھی لکھا جا رہا ہے، تاہم ان کے خیال میں صرف پاسپورٹ نہیں بلکہ بہت سی دیگر دستاویزات پر بھی والدہ کا نام شامل ہونا چاہیے۔
بقول عروسہ: ‘میں اور میرے شوہر ہم دونوں کام کرتے ہیں لیکن بچی کی سکول فیس اور دیگر اخراجات میں اپنی تنخواہ سے پورے کرتی ہوں۔ کچھ سال قبل تک ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے لیے جب بھی سکول سے ٹیکس سرٹیفکیٹ لیا، وہ میرے شوہر کے نام کا بنا دیتے تھے، یعنی یہ ان کے لیے یقینی بات تھی کہ فیس تو والد ہی دیتے ہوں گے جبکہ فیس تو میرے اکاؤنٹ سے جاتی تھی، مجھے پھر سکول جا کر اسے ہمیشہ درست کروانا پڑتا تھا۔‘
عروسہ نے ہنستے ہوئے اس بات کی بھی شکایت کی کہ ’اکثر بچوں کے تعلیمی دورے کے لیے اجازت نامے کی سلپ آتی ہے تو اس پر بھی والد کے دستخط ہی چاہیے ہوتے ہیں، اور تو اور کسی مقابلے میں بچے کو اگر کوئی سرٹیفکیٹ بھی ملے تو اس پر بھی والد کا نام ہی درج ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اگر ایسی چیزوں پر بھی والدہ کا نام ساتھ درج کر دیا جائے تو ہم جیسی مائیں جو بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھا رہی ہیں، وہ بھی خوش ہو جائیں، یہ تو ایسی ہی بات ہے نہ کہ سب کچھ ہم کریں لیکن نمبر والد کے بن جاتے ہیں۔‘
کیا نادرا بھی شناختی کارڈ پر والدہ کا نام درج کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے؟
اس حوالے سے نادرا کے ترجمان سید شباہت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جو ہمارا فیملی سسٹم ہے، جس کے حساب سے ہم فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں، اس میں خاندان کا سربراہ صاحب خانہ ہوتا ہے اور ایف آر سی کے اندر ماں اور باپ دونوں ہی کے نام درج ہوتے ہیں، اس کے بغیر وہ سرٹیفکیٹ بن نہیں سکتا، جہاں تک بات ہے شناختی کارڈ کی اس پر صرف والد ہی کا نام ہوتا ہے کیونکہ ولدیت کا تصور اسی سے چلتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’البتہ ہم نے ایک اور سسٹم متعارف کروایا ہے، جس میں اب ب فارم پر بچے کی تصویر اور اس کے بائیو میٹرکس بھی درج ہوں گے تاکہ ہیومن ٹریفکنگ کو روکا جا سکے۔‘
سید شباہت علی کے مطابق: ’پہلے جو چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یا ب فارم بنتے تھے، ان پر بچوں کی تصاویر نہیں ہوتی تھیں، جس کی وجہ سے ایک ب فارم پر انسانی سمگلر دوسرے بچے کو لے جایا کرتے تھے۔ اب ہم نے 19 جون 2025 کو اپنے قوانین میں تبدیلی کروائی، جس کے تحت تین سال کی عمر سے اوپر جتنے بچے ہیں، ان کے ب فارمز پر تصاویر لگائی جا رہی ہیں اور جو 10 سال سے اوپر کے بچے ہیں، ان کے بائیو میٹرکس لیے جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ’پاسپورٹ آفس نے یہ کیا کہ انہوں نے والدہ کا نام پاسپورٹ میں شامل کر دیا اور نادرا نے اپنے ب فارم میں کیٹگریز ڈال دیں تاکہ بچوں کی تصاویر اور ان کے فنگر پرنٹس ان کے پاس موجود ہوں لیکن دونوں اداروں کا مدعا ایک ہی ہے کہ کسی بھی صورت میں انسانی سمگلنگ کو روکا جا سکے۔‘
بقول سید شباہت علی: ’سنگل مدرز کی سہولت کے لیے ہی ایف آر سی پر ماں کا نام بھی درج کیا گیا ہے۔ والد کے نام پر یا تو یہ لکھا آ رہا ہوگا کہ وہ حیات نہیں یا ماں کا سٹیٹس طلاق یافتہ لکھا آرہا ہوگا۔
’بچہ جب اپنا ب فارم نکالے گا، جس کی ضرورت ہر جگہ پڑتی ہے، چاہے وہ تعلیمی معاملہ ہو، جائیداد کی تقسیم کا معاملہ ہو یا ملک سے باہر سفر کرنا ہو تو ایف آر سی کی ضرورت ہوتی ہے، صرف شناختی کارڈ نہیں چلتا اور ایف آر سی پر دونوں والدین کے نام درج ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ نادرا کے پاس سہولت ہے کہ وہ شناختی کارڈ پر والد کی جگہ والدہ کا نام درج کر دیں تو ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ہم سے کبھی کسی نے ایسی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔‘