’دختر پارا چنار‘ مدحت زہرا: زینبیون بریگیڈ سے مبینہ تعلق سے لے کر بریت تک

’دختر پاراچنار‘ کے نام سے جانی جانی والی مدحت زہرا کالعدم تنظیم زینبیون بریگیڈ سے مبینہ روابط کے الزامات سے تو بری ہو چکی ہیں، تاہم اب ان کی بریت کے خلاف ایف آئی اے نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

ایک پاکستانی خاتون یکم ستمبر 2004 کو کراچی میں سڑک کے اوپر بنے ایک پُل پر چل رہی ہیں۔ (فائل فوٹو/اے ایف پی/ عامر قریشی)

’دختر پاراچنار‘ کے نام سے جانی جانی والی مدحت زہرا کالعدم تنظیم زینبیون بریگیڈ سے مبینہ روابط کے الزامات سے تو بری ہو چکی ہیں، تاہم اب ان کی بریت کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

خیبر پختونخوا کے سرحدی ضلع کرم ایجنسی کے مرکزی علاقے پاراچنار سے تعلق رکھنے والی مدحت زہرا کو اکتوبر 2021 میں ایف آئی اے کے حکام نے کراچی ایئرپورٹ سے زینبیون بریگیڈ سے تعلق کا الزام عائد کرتے ہوئے حراست میں لیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات 11H, 11J  اور 11M کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

تاہم یہ الزامات کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ثابت نہ ہو سکے اور وہ 30 اپریل 2024 کو اس مقدمے سے باعزت بری ہو گئیں۔

پاکستان کی وزارت داخلہ نے مارچ 2024 میں زینبیون بریگیڈ کو یہ کہہ کر کالعدم تنظیم قرار دیا تھا کہ اس کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروہ ’ملک کے امن و امان اور سلامتی کے لیے نقصان دہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔‘

اس تنظیم کو امریکی محکمہ خزانہ نے بھی جنوری 2019 میں اپنی مالیاتی بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا۔

اس وقت مدحت زہرا کہاں ہیں؟

مدحت زہرا کے وکیل عبدالحلیم، جنہوں نے 2021 میں ان کا کیس لڑا تھا، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’حالیہ برسوں میں وہ کراچی کے علاقے پہلوان گوٹھ میں مقیم تھیں۔ اِن دنوں وہ کراچی میں ہیں یا نہیں، اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘

وکیل عبدالحلیم کے مطابق: ’تقریباً چھ ماہ قبل ضمانت یا مچلکوں کے کسی قانونی معاملے میں ان سے رابطہ ہوا تھا اور اس وقت وہ کراچی میں ہی موجود تھیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’میرے مشاہدے میں مدحت زہرا ذہنی طور پر پریشان دکھائی دیتی تھیں۔ اگر کوئی فرد کسی قسم کی ٹریننگ کے بعد واپس آتا ہے تو اس کے رویے میں ایک خاص قسم کی غیر معمولی کیفیت آ جاتی ہے اور میرے نزدیک ان میں بھی ایسی ہی کچھ علامات نظر آتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد ان کا پاسپورٹ بھی لے لیا گیا تھا اور غالب امکان ہے کہ وہ انہی حالات کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔‘

انہوں نے بتایا: ’مدحت زہرا ایک شائستہ اور بااخلاق خاتون تھیں۔ میرے نزدیک چونکہ مدحت زہرا خود ایک عرصے تک لاپتہ رہیں، اس لیے یہ مقدمہ ختم ہو جانا چاہیے۔‘

بریت کے خلاف درخواست

حال ہی میں ایف آئی اے کے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد احمد قریشی کی جانب سے مدحت زہرا عرف کی بریت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

محمد احمد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’مدحت زہرا نے ایران اور عراق کے درجنوں سفر کیے۔ ان دوروں کو مشکوک قرار دے کر 2021 میں ان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’الزامات کے مطابق وہ زینبیون بریگیڈ، فاطمیون ڈویژن اور حزب اللہ جیسے عسکری گروہوں کے لیے نوجوانوں کی بھرتی میں ملوث تھیں اور مبینہ طور پر پاکستان میں بیٹھ کر لوگوں کو عراق اور شام جیسے جنگ زدہ علاقوں میں منتقل کروانے میں مدد فراہم کرتی تھیں۔‘

محمد احمد قریشی کے مطابق: ’وہ کسی ادارے میں ملازمت نہ ہونے کے باوجود بارہا ان ممالک کا سفر کر چکی تھیں۔‘

ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کی کراچی آمد کا مقصد بھی یہی بھرتی تھی، لیکن عدالتی کارروائی میں یہ الزامات ثابت نہ ہو سکے۔

تاہم مدحت زہرا کے وکیل عبدالحلیم کہتے ہیں کہ ’بچپن ہی سے تعلیم میں دلچسپی رکھنے والی مدحت نے مقامی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں مذہبی تعلیم کے لیے ایران کا رخ کیا۔

’ایران میں قیام کے دوران ان کے بارے میں بعض غیر مصدقہ اطلاعات سامنے آئیں کہ انہوں نے وہاں شادی کی، تاہم اس حوالے سے کوئی مستند دستاویز یا سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔‘

سندھ ہائی کورٹ میں 19 جولائی 2025 کو مدحت زہرا کی بریت کے خلاف اپیل پر سماعت کے حوالے سے ایف آئی اے کے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد احمد قریشی نے بتایا کہ ریاستی وکلا نے اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حساس نوعیت کے مقدمات کو معمولی سمجھ کر چھوڑنا ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

کاغذات کی عدم تکمیل کے باعث عدالت عالیہ نے اس معاملے پر سماعت اگست کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

خاتون کے وکیل عبدالحلیم کے مطابق ایف آئی اے کے تمام الزامات قیاس آرائی پر مبنی تھے۔ ان کے مطابق: ’مدحت کا ماضی صاف تھا اور وہ کسی شدت پسند گروہ سے عملی طور پر وابستہ نہیں رہیں۔‘

تاہم ایف آئی اے کے محمد احمد قریشی کہتے ہیں کہ ’مدحت زہرا عرف ’شینو‘ اور ’چینا‘ کو شواہد کی عدم موجودگی پر عدالت نے بری کر دیا تھا، تاہم کیس کے پس منظر اور حساس نوعیت کے پیش نظر ریاستی ادارے نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے پر غور کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان