محققین سمندری طوفان کی پیش گوئی کو بہتر بنانے کی کوشش میں ایک غیر متوقع اتحادی یعنی شارک کی مدد لے رہے ہیں۔
تین شارک مچھلیوں کو سینسر لگا کر بحر اوقیانوس کے گرم پانیوں میں چھوڑا گیا ہے تاکہ وہ بڑے سمندری طوفان کا ڈیٹا جمع کریں۔ یہ طریقہ نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے عام طور پر فضاؤں میں اڑنے والے ان طیاروں کے مقابلے میں مختلف ہے جو سمندری طوفان کا پتہ لگاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ڈیلاویئر کے ماہرِ سمندری حیاتیات ایرن کارلائل، جو اس منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں، نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’سمندر اتنا وسیع اور بڑا ہوتا ہے کہ زیادہ تر چیزوں تک رسائی ممکن نہیں۔ لیکن جب آپ وہاں رہنے والے جانوروں کو آلات سے لیس کر دیتے ہیں تو آپ بنیادی طور پر انہیں ایسے سمندری سینسرز میں بدل دیتے ہیں جو مسلسل ڈیٹا جمع کرتے رہتے ہیں۔‘
شارک مچھلیاں پانی کی برقی موصلیت اور درجہ حرارت کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں سطح سمندر کے ریکارڈ درجہ حرارت نے خاص طور پر بڑے اور طاقتور سمندری طوفانوں کو جنم دیا۔ یہ درجہ حرارت گرم ہوتی زمین اور انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
یہ واضح نہیں کہ شارک کبھی سمندری طوفانوں کے قریب پہنچیں گی یا نہیں لیکن درجہ حرارت کی نگرانی کر کے سائنس دان بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر سمندری طوفان کے موسم میں امریکہ میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ طوفان کہاں جائیں گے اور آیا وہ غیر معمولی طور پر طاقتور ہوں گے یا نہیں۔
شارک، جو اہم نوع اور سب سے بڑی شکاری ہیں، ایسی معلومات تک منفرد رسائی رکھتی ہیں جسے حاصل کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موسم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے مصنوعی سیارے سمندر کی سطح سے نیچے نہیں دیکھ سکتے اور وہ روبوٹک گلائیڈرز جو سائنس دان براعظمی کنارے تک بھیجتے ہیں، کارآمد تو ہیں مگر سست رفتار اور مہنگے ہوتے ہیں۔
شارک پر لگے ٹیگ یہ ڈیٹا زیادہ مؤثر طریقے سے جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دو میکو شارک پر ایسا ٹیگ لگایا گیا جو درجہ حرارت، گہرائی اور برقی موصلیت کو ناپتا ہے۔ ایک سفید شارک پر سیٹلائٹ ٹیگ لگایا گیا تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا یہ نوع مستقبل میں اسی طرح کے ٹیگنگ کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ ممکن ہے وہ ہیمر ہیڈ اور وہیل شارک پر بھی تجربہ کریں۔
شارک ماہر حیاتیات اور ایرن کارلائل کے ساتھ کام کرنے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ کیرولین ویرنیکی نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’شارک (روبوٹک) گلائیڈرز سے زیادہ تیز رفتار ہیں۔ وہ زیادہ دیر تک باہر رہ سکتی ہیں۔ اس لیے امید ہے کہ شارک موجودہ مانیٹرز کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے امید ہے کہ ہم ان شارک مچھلیوں کو بھیج کر اور مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘
یہ تحقیق ایرن کارلائل اور یونیورسٹی آف ڈیلاویئر کے ایک اور پروفیسر میٹ اولیور کی سربراہی میں ہو رہی ہے۔ وہ این او اے اے (نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن) کی مڈ اٹلانٹک ریجنل ایسوسی ایشن کوسٹل اوشن آبزرونگ سسٹم کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جو ادارے کے انٹیگریٹڈ اوشن آبزرونگ سسٹم پروگرام کا علاقائی حصہ ہے۔
مستقبل میں منصوبہ ہے کہ ہر سال درجنوں شارک مچھلیوں پر ٹیگ لگایا جائے اور اس ڈیٹا کو سمندری طوفان کے کمپیوٹر ماڈلز میں شامل کیا جائے۔
ایرن کارلائل نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ اب تک دو میں سے ایک شارک نے درجہ حرارت کا ڈیٹا واپس بھیجا ہے لیکن دوسری شارک اتنے کم گہرے پانی میں تیر رہی ہے کہ اس کا سینسر فعال نہیں ہو سکا۔
محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے میکو شارک اس لیے منتخب کیں کیوں کہ یہ اکثر سطح پر واپس آتی ہیں، جس سے ٹیگ سیٹلائٹ کو ڈیٹا بھیج سکتے ہیں اور سائنس دان اسے حاصل کر سکتے ہیں۔
چھوٹے پروں والی میکو شارک سمندر کی تیز ترین شارک ہیں جو 40 میل فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار کے ساتھ تیر سکتی ہیں۔ جائزے کے بعد این او اے اے نے 2022 میں کہا کہ وہ انہیں خطرے یا معدومی کی شکار نوع میں شامل نہیں کرے گی۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے مطابق یہ مچھلیاں معدومی کے خطرے سے دوچار انواع میں شامل ہیں۔
اس وقت ہر تین میں سے ایک شارک اور رے مچھلیوں کی نوع معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ انٹرنیشنل فنڈ فار اینیمل ویلفیئر کے مطابق زیادہ شکار کی وجہ سے 1970 کی دہائی سے اب تک دنیا بھر میں شارک اور رے مچھلیوں کی تعداد 70 فیصد سے زیادہ کم ہو چکی ہے۔ اس ادارے کے مطابق انسان تجارتی ماہی گیری میں ہر منٹ میں تقریباً 190 اور ہر سال 10 کروڑ شارک مارتے ہیں۔
محققین نے یو ایس اے ٹوڈے کو بتایا کہ انہیں توقع نہیں کہ سینسرز ان جانوروں پر زیادہ منفی اثر ڈالیں گے اور اس کے لیے وہ مکمل اجازت نامے اور جائزے کے عمل سے گزرتے ہیں۔
ایرن کارلائل نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’ہم جانوروں کے پروں کو چھیدنے کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب ان جانوروں سے محبت کرتے ہیں، اس لیے ہم انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔‘
© The Independent