13 زیر زمین ٹینکس کے باوجود لاہور اربن فلڈنگ کا شکار

ماہرین نے نکاسیِ آب کے لیے مؤثر اور پائیدار اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

لاہور کا ایک رہائشی 10 جولائی، 2025 کو مون سون کی شدید بارش کے بعد اپنے گھر سے جمع شدہ پانی باہر نکال رہا ہے (اے ایف پی)

شدید بارشوں کے بعد صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا شہر لاہور اربن فلڈنگ کا شکار ہے، حالانکہ شہر میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے 13 زیر زمین واٹر ٹینک تعمیر کیے جا چکے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور کے علاقے تاجپورہ میں بدھ کی صبح سب سے زیادہ 115 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

رواں ہفتے 24 سے 29 جولائی تک مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس سے شہریوں کی پریشانی مزید بڑھ سکتی ہے۔

واسا پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل طیب فرید کے مطابق لاہور سمیت صوبے کے بڑے شہروں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور زمین کے اندر ری چارج کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کے بقول ’زیر زمین پانی کی سطح بہتر کرنے کے لیے 100 مقامات پر بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا چکا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر جلد عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ تاہم ماہرین کے مطابق موجودہ اقدامات اربن فلڈنگ سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔

رواں مون سون میں مسلسل شدید بارشوں نے اربن فلڈنگ سے ہر طرف سیلاب کی صورت حال بنا رکھی ہے۔ نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہونے سے گھروں کی چھتیں گرنا معمول بنا ہوا ہے۔ نظام زندگی بھی متاثر ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔

لاہور میں زیرِ زمین ٹینک بنانے کا منصوبہ 2020 میں شروع ہوا تھا۔ اس کا مقصد شہری سیلاب سے بچنے کے علاوہ شہر میں پانی کی سطح (واٹر ٹیبل) کو بلند کرنا تھا۔ اس کے علاوہ یہ پانی باغبانی وغیرہ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔  

اس سے قبل مئی 2025 میں واسا کے قانونی مشیر میاں عرفان اکرم نے لاہور ہائی کورٹ کو ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ لاہور میں زیر زمین ٹینکوں میں دو کروڑ 42 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق واسا شہری سیلاب کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم مقامات پر مزید زیر زمین ٹینک بنائے گا۔

ماہر اربن ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر پلاننگ سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (سی بی ڈی) لاہورسمیر آفتاب نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اربن فلڈنگ کے اثرات کم کرنے کے لیے زیر زمین ٹینک بننا شروع ہو چکے ہیں۔ گرین بیلٹس اور پارکوں کے نیچے واٹر سٹوریج سے کافی حد تک پانی کو کور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی آبادیوں کو پلاننگ سے پھیلنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے۔ لاہور پرانا شہر ہے قدیم آبادی پلاننگ سے نہیں ہے، اسی لیے اندرون اور اس کے اطراف تجاوزات سے پانی کا بہاؤ کافی متاثر ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سمیر آفتاب کے بقول، ’اس کے لیے موجودہ حکومت نے تجاوزات ختم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے جو بہتر اقدام ہے۔ اس کے علاوہ سڑکیں بھی کھلی بنا کر ان کے اطراف گرین بیلٹ کے نیچے واٹر ٹینک اب پلاننگ کا حصہ ہیں۔ لاہور میں شدید بارشوں کا زیادہ پانی دریائے راوی میں جاتا ہے۔ اس لیے روڈا (راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) نے دریائے راوی میں چھوٹے بیراج بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے تاکہ اربن فلڈنگ سے بچنے کے لیے شہر سے پانی فوری دریا میں آئے اور وہاں ذخیرہ ہو کر بعد میں قابل استعمال بنایا جا سکے۔‘

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہ ڈاکٹر منور صابر کہتے ہیں کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب کلاؤڈ برسٹ اور مسلسل بارشوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جس سے ناقابل برداشت شہری سیلاب پیدا ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’زیر زمین ٹینکس بنانا ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں۔ حکومت کو ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا ہو گا۔‘

ڈاکٹر منور کا یہ بھی کہنا تھا کہ اربن فلڈنگ سے بچاؤ کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔

ان کے مطابق شہروں کے اہم چوراہوں پر بڑی تعداد میں زیر زمین کنویں بنانا موثر حل ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف پانی محفوظ ہو گا بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو گی۔

ڈی جی واسا نے مزید بتایا کہ ’صوبے بھر میں واسا، پی ایچ ای، اور روڈ ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ مل کر ایک مربوط لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے۔ تمام علاقوں میں نکاسی آب کے نظام کا جامع جائزہ لیا جا رہا ہے، اور ہر شہر میں واٹر ری چارجنگ پوائنٹس کی نشاندہی کی جائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات