پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق گلگت بلتستان میں شدید بارشوں کے باعث فلیش فلڈنگ اور لینڈ سلائیڈنگ سے بیشتر مقامات پر سڑکیں بلاک ہیں جبکہ پھنسے ہوئے سیاحوں کو نکالنے کا کام جاری ہے۔
این ڈی ایم اے نے پیر کی شب اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ’بابو سر ٹاپ جل سے دیونگ میں کلاؤڈ برسٹ کے وجہ شدید لینڈ سلائیڈنگ و فلیش فلڈنگ سے 14 سے 15 مقامات پر روڈ بلاک ہے۔‘
بیان کے مطابق مقامی انتظامیہ نے سیلابی ریلے میں پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے تاہم شاہراہ قراقرم لال پہاڑی اور تتہ پانی کے مقامات پر ابھی بھی سڑک بند ہے۔‘
این ڈی ایم اے نے مزید کہا ہے کہ ’سڑک کی بحالی اور ملبے میں پھنسی گاڑیوں کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ تاہم، بھاری ملبے کے باعث کچھ علاقے ناقابل رسائی ہیں۔‘
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ نے شاہراہ بابوسر پر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
فیض اللہ فراق نے منگل کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ شاہراہ بابوسر میں لوگوں کے گھروں میں پناہ لینے والے 300 سے زائد سیاحوں کو چلاس منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ تاحال 15 کے قریب افراد لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
فیض اللہ فراق نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے تعاون سے بابوسر کے علاقے میں بذریعہ ہیلی کاپٹر امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت کے مطابق ہیلی کاپٹر کے ذریعے خوراک کے پیکٹس متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کا عمل بھی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں کے باعث پھنسے اور لاپتہ سیاحوں کے لیے شروع کیا گیا سرچ آپریشن رات کی تاریکی کی وجہ سے متاثر ہوا جسے منگل کی صبح دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
فیض اللہ فراق نے بتایا ہے کہ سیلاب سے شاہراہ بابوسر پر ایک گرلز سکول، دو ہوٹل، ایک پن چکی، گندم ڈپو، پولیس چوکی، ٹورسٹ پولیس شلٹر تباہ ہوگئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیلابی ریلوں سے شاہراہ بابوسر سے متصل 50 سے زائد مکانات مکمل تباہ، آٹھ کلومیٹر سڑک شدید متاثر اور 15مقامات پر روڈ بلاک ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی ترجمان کے مطابق شاہراہ بابوسر پر چار رابطہ پل بھی تباہ ہوئے ہیں۔
’مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کا اندیشہ ہے‘
چلاس سے تعلق رکھنے والے صحافی شہاب الدین غوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ واقعہ کل دن میں تین بجے سہ پہر کو شاہراہِ بابوسر پر پیش آیا، جب تیز بارش کے باعث سیلابی ریلے آئے جن کی زد میں سیاحوں کی گاڑیاں آ گئیں۔
’اس وقت چلاس کے ہسپتال کی ریجنل ہسپتال میں سیاحوں تین میتیں پہنچائی گئی ہیں، لیکن جتنا تیز ریلا تھا اور جتنی گاڑیاں اس کی زد میں آئی ہیں، اس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ایک مقامی شخص بھی جان سے گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہاب الدین نے بتایا کہ ’لودھراں کی ایک لیڈی ڈاکٹر اور ان کے خاندان کے افراد بھی اس ریلے کی زد میں آئے ہیں۔ اس سڑک پر اب بھی بہت سی گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں کیوں کہ ریلے کے باعث راستہ بند ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مقامی لوگوں نے سیاحوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے، خود میرے گھر میں متعدد افراد بطور مہمان مقیم ہیں۔‘
ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ریجنل ہسپتال چلاس ڈاکٹر مشتاق نے بتایا کہ ’اس وقت صورتِ حال کی وجہ سے ہسپتال میں ہنگامی حالت کا نفاذ ہے اور تمام عملے کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تین لاشیں ہیں، دو مرد اور ایک خاتون کی۔ اس کے علاوہ دو زخمی تھے جن میں ایک مقامی شخص تھا اور ایک سیاح تھا، تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے مطابق گلگت بلتستان کے علاقے چلاس تھک نالے میں سیلابی ریلوں کی زد میں آکر ’خاتون سمیت تین افراد‘ کی موت ہو گئی ہے جبکہ درجنوں زخمی اور لاپتہ ہیں۔
پی ٹی وی کے مطابق علاقے میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور مقامی افراد ملبے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکال کر ریسکیو 1122کے ذریعے چلاس روانہ کر رہے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) نے ہفتے کو خبردار کیا تھا کہ 19 سے 25 جولائی تک ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون بارشوں کے باعث ممکنہ سیلابی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے آنے والی نمی اور ارد گرد کے علاقوں میں کم دباؤ کے نظام کے اثر و رسوخ کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ملک کے بیشتر حصوں میں ہلکی سے شدید بارش ہونے کی توقع ہے جس سے دریائے کابل، سوات، پنجکوڑہ، کالپنی نالہ اور بارہ نالہ میں طغیانی کا خطرہ ہے۔