ہفتے میں 4 دن کام ذہنی صحت کے لیے بہتر: محققین متفق

بوسٹن کالج کے اہم مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ چار روزہ کام والا ہفتہ اپنانے سے مالکان اور ملازمین دونوں کی طرف سے غیر معمولی حد تک اطمینان کا انکشاف ہوا ہے۔

26 جولائی 2016 کو اسلام آباد میں قائم پاور 99 ایف ایم ریڈیو کا پاکستانی عملہ اسلام آباد میں ریڈیو سٹیشن کے دفتر میں اپنے کمپیوٹر پر کام کر رہا ہے (اے ایف پی)

تو ہم سب متفق ہیں! پانچ دن کام والے ہفتے کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ محققین کے مطابق، ہفتے میں صرف چار دن کام کرنا ملازمین کی ذہنی صحت کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

بوسٹن کالج کی ایک ٹیم نے کہا کہ ان کے اہم مطالعے، جس میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور آئرلینڈ کی 100 سے زائد کمپنیاں اور تقریباً 2,900 ملازمین شامل تھے، سے یہ بات سامنے آئی کہ چار روزہ کام والا ہفتہ اپنانے سے مالکان اور ملازمین دونوں کی طرف سے غیر معمولی حد تک اطمینان کا انکشاف ہوا ہے۔

اس میں پیداواری صلاحیت میں بہتری، آمدنی میں اضافہ، جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات، اور دباؤ و ذہنی تھکن میں کمی شامل تھی۔ 2024 کے ایک سروے میں، جس میں دو ہزار سے زائد کل وقتی امریکی ملازمین نے شرکت کی، نصف سے زیادہ نے بتایا کہ انہوں نے گذشتہ سال مسلسل دفتری دباؤ کے باعث تھکن محسوس کی۔

سوشیالوجی کی پروفیسر اور فور ڈے ویک گلوبل نامی غیر منافع بخش تنظیم کی اکیڈیمک بورڈ کی رکن جولیئٹ شور نے کہا:  ’جب میری انٹرویو لینے والی خاتون نے اپنے سب سے بڑے کلائنٹ کو بتایا کہ وہ اب جمعہ کو کام نہیں کریں گی، تو جواب میں انہیں کہا گیا، ’بہت اچھا!‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ گروپ چار دن کے کام کے ہفتے کے حامیوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ’میرے خیال میں یہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں نے کام کی نوعیت کے بارے میں اپنی سوچ کس قدر بدل لی ہے؛ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں تین دن کی چھٹی کو اب زیادہ معقول سمجھا جاتا ہے۔‘

یہ کمپنیاں فور ڈے ویک گلوبل کی جانب سے منعقدہ چھ ماہ پر محیط آزمائشی منصوبوں میں شریک ہوئیں۔ اس منصوبے میں ملازمین کی تنخواہیں کم نہیں کی گئیں اور شرکت کرنے والی کمپنیوں اور تنظیموں نے تنخواہ کم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

اس مطالعے کے تازہ ترین اعداد و شمار اس ماہ جاری کیے گئے، جو کہ 33 کمپنیوں پر مشتمل پہلے اور دوسرے آزمائشی مراحل سے حاصل کیے گئے۔

محققین، جن میں یونیورسٹی کالج ڈبلن کے ماہرین بھی شامل تھے، نے ملازمین سے سروے اور انٹرویوز کے ذریعے معلومات اکٹھی کیں، جب کہ کمپنیوں نے انتظامی ڈیٹا فراہم کیا۔

 انہوں نے بتایا کہ وہ تجربے سے پہلے اور بعد، نیز مختلف ممالک، کمپنیوں، ملازمین کی آبادیاتی خصوصیات اور ملازمتوں کی اقسام کے درمیان فرق کا تجزیہ کر رہے ہیں۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر وین فین نے وضاحت کی: ’کام کے اوقات کم ہوئے، فلاح و بہبود بہتر ہوئی، اور تنظیمی سطح پر اہم نتائج برقرار رہے - اور یہ سب ملازمین کے تیز کام کیے بغیر ہوا۔

ان کے تجزیے کے مطابق، ملازمین کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ کمپنیوں نے کم مؤثر یا غیر ضروری سرگرمیوں، مثلاً غیر ضروری میٹنگز، کو ختم یا محدود کر دیا۔ اس کے بجائے، بات چیت فون کالز اور میسجنگ ایپس کے ذریعے ہونے لگی۔

ایک اور اہم عنصر یہ تھا کہ ملازمین اپنا تیسرا چھٹی کا دن ڈاکٹر سے ملنے یا دیگر ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرتے، جو بصورت دیگر کام کے دنوں میں گھسانے پڑتے۔

محققین کے مطابق، ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہفتے میں چار دن کام والا ہفتہ اپنانے سے مالکان کے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں اور ملازمین کی ملازمت چھوڑنے کی شرح بھی کم ہو سکتی ہے۔

تاہم، یہ طریقہ ہر ادارے پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ کچھ تیز رفتار کام کرنے والی جگہوں، جیسے کہ مینوفیکچرنگ، میں چار دن کا ورک ویک اپنانا مشکل ہو سکتا ہے۔

مزید یہ کہ انہوں نے ابھی تک کسی بہت بڑی کمپنی میں چار دن کام والے ہفتے کو نہیں آزمایا ۔ اب تک وہ تنظیمیں شامل کی گئی تھیں جن میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔

یہ مطالعہ، جو پیر کو ’نیچر ہیومن بیہیوئیر‘ نامی جریدے میں شائع ہوا، پچھلی تحقیق پر مبنی ہے جس میں اسی قسم کے فوائد سامنے آئے تھے، اور حالیہ ایک مطالعے میں طویل کام کے اوقات کو دماغی ساخت میں تبدیلی سے جوڑا گیا ہے۔

فین نے گیزمودو نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ انہوں نے آزمائشی منصوبے کے مکمل ہونے کے چھ ماہ بعد بھی شرکا پر نظر رکھی، اور پایا کہ تمام اہم اثرات ’برقرار رہے۔‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’سماجی تبدیلی ہمیشہ مشکل ہوتی ہے، خاص طور پر جب بات ان گہرے ادارہ جاتی اصولوں کو چیلنج کرنے کی ہو جو طے کرتے ہیں کہ ہم کب، کہاں اور کیسے کام کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم کووڈ کے بحران کو ان انقلابی تبدیلیوں کے ضیاع کا باعث نہیں بنائیں گے جو اس نے ہمارے کام کی دنیا میں متعارف کروائی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت