انڈیا کی حکومت سموسے اور جلیبی جیسے من پسند کھانوں کے لیے صحت کا انتباہ جاری کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ ان میں موجود پوشیدہ تیل، چینی اور ٹرانس فیٹس مواد کے متعلق آگاہی پھیلائی جا سکے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انڈیا کی فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی (ایف ایس ایس اے آئی) نے 14 کھانے کی اشیا کی نشاندہی کی ہے، جن میں مقبول انڈین سٹریٹ فوڈ جیسے سموسے، پکوڑے، وڑا پاؤ اور کچھ قسم کے بسکٹ شامل ہیں، جن کے لیے کیفے ٹیریاز اور عوامی جگہوں پر صاف اور واضح انتباہی نوٹس لگائے جائیں گے۔
اگرچہ چند میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کھانے کی ان اشیا پر انتباہی لیبلز ہوں گے۔
تاہم یونین ہیلتھ منسٹری نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ ان کا مشورہ ’بورڈز آویزاں کرنے‘ پر مرکوز ہے اور اس کا مقصد ’کھانے کی سب مصنوعات میں پوشیدہ فیٹس اور اضافی چینی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک رویہ ساز اقدام‘ ہے، اور یہ کسی کھانے کی خاص چیز کے لیے نہیں۔
یہ اقدام، جو پہلے ہی ریاستی حکومت کے زیر انتظام اداروں جیسے ای آئی ایم ایس ناگپور کے کیفے ٹیریا میں نافذ ہو چکا ہے، طرز زندگی سے متعلق بیماریوں کی بڑھتی ہوئی تشویش کے دوران سامنے آیا ہے۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن نے مبینہ طور پر اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور قلبی امراض جیسی غیر متعدی بیماریوں کی انڈیا میں بڑھتی ہوئی وبا سے نمٹنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔
کارڈیولوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کے ناگپور چیپٹر کے سربراہ ڈاکٹر امر املے نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’یہ خوراک کی لیبلنگ کا سگریٹ کی وارننگز کی طرح سنجیدہ ہونے کی ابتدا ہے۔
’چینی اور ٹرانس فیٹس نئے تمباکو ہیں۔ لوگ یہ جاننے کے مستحق ہیں کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔‘
زاندرا ہیلتھ کیئر میں ذیابیطس کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر راجیو کویل نے انڈیا ٹائمز کو بتایا ’ہائی کیلوری والے سنیکس موٹاپے میں معاون ہیں، جو متعدد دائمی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کم سے کم غذائی اہمیت کے ساتھ حد سے زیادہ کیلوریز کے استعمال کا باعث بھی بنتے ہیں، نیز ہاضمے کے مسائل کو بدتر بناتے ہیں، فیٹی لیور اور انسولین مزاحمت کا خطرہ بڑھاتے ہیں اور دماغی کمزوری، مزاج کی خرابیوں، سوزش، ہارمونل عدم توازن، اور مجموعی طور پر کمزور مدافعتی نظام میں معاون ہیں۔
انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کے مطابق سات کروڑ 70 لاکھ زیادہ انڈین ٹائپ ٹو ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جو تقریباً نو فیصد بالغ آبادی بنتی ہے اور ذیابیطس سے متعلق پیچیدگیاں سالانہ تمام اموات کا تقریباً دو فیصد ہیں۔
امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والی ایک چنئی میں کی گئی تحقیق سے پتا چلا کہ زیادہ مقدار میں ریفائنڈ اناج، جیسے کہ سموسے اور جلیبیوں میں استعمال ہونے والے، استعمال کرنے والے افراد میں میٹابولک سنڈروم ہونے کا امکان تقریباً آٹھ گنا زیادہ تھا، جس میں ہائی بلڈ پریشر، انسولین مزاحمت اور پیٹ کی چربی جیسے خطرے کے عوامل شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی دوران ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ٹرانس فیٹس کو، جو انڈین سٹریٹ فوڈز کا ایک عام جزو ہیں، انڈیا میں ہر سال 77 ہزار سے زیادہ دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
تاہم، اس اقدام کو غذائی ماہرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے دلیل دی ہے کہ یہ مہم غیر منصفانہ طور پر روایتی انڈین کھانوں کو نشانہ بناتی ہے۔
مشہور غذائی ماہر روجوتا دیویکر نے، جو طویل عرصے سے مغربی متبادلات کی بجائے مقامی خوراک کی حمایت کرتی رہی ہیں، اپنے سوشل میڈیا پر ایک پیغام پوسٹ کیا جس میں سوال اٹھایا گیا کہ پروسیسڈ سنیکس بغیر وارننگ کے کیوں کھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا ’تمباکو ایک آزاد خطرے کا عنصر ہے۔ یہ ماحول اور طرز زندگی سے قطع نظر نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا کافی ثبوت ہے۔
’سموسے اور جلیبی نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ اگر ہم صحت کی وارننگز کے بارے میں سنجیدہ ہیں – کولا، چپس، کوکیز وغیرہ کو پہلے ملنی چاہییں۔ کھانے کی بڑی اشیا کو منظم کریں اور اس پر ٹیکس لگائیں۔‘
دیویکر نے اپنی کیپشن میں مزید کہا ’انتہائی پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس اصل مسئلہ ہیں اور اس کا بھی کافی ثبوت ہے۔‘
ایم پی ملند دیورا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ پارلیمانی سب آرڈینیٹ قانون سازی کمیٹی فی الحال فوڈ ریگولیٹر ایف ایس ایس اے آئی کے انڈیا میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے بحران سے نمٹنے کے منصوبوں کا جائزہ لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا ’ہم نے متفقہ طور پر تمام کھانے کی اقسام بشمول الکحل میں یکساں قواعد و ضوابط کی وکالت کی ہے، تاکہ انڈین کھانے کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ نہ بنایا جائے جبکہ ایم این سیز مغربی جنک کو بلا روک ٹوک مارکیٹ کرتے رہیں۔‘
سابق رکن پارلیمنٹ ملند دیورا نے بھی ایکس پر ایک پوسٹ میں حکومت کی توجہ پر تنقید کی اور ایک مساوی میدان عمل کا مطالبہ کیا تاکہ ’انڈین کھانے کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ نہ بنایا جائے جبکہ ایم این سیز مغربی جنک کو بلا روک ٹوک مارکیٹ کرتے رہیں۔‘
انڈینز کے ردعمل ملے جلے رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ وارننگز کو طویل عرصے سے زیر التوا سمجھتے ہیں۔
دوسروں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ نشانیاں واقعی کھانے کی عادات کو بدلیں گی یا آرام دہ کھانوں کو بدنام کرنے کا کام کریں گی۔
مصنف کرن منرال نے لکھا ’کیا انہیں پیک شدہ کھانوں، پروسیسڈ کھانوں، پیزا، برگرز، کولڈ سٹوریج میٹ، چپس، سافٹ ڈرنکس وغیرہ پر بھی ہونا چاہیے؟‘
ایکس پر ایک شخص نے لکھا ’آپ صحت کے لیے جلیبی اور سموسے نہیں کھاتے۔ آپ الکحل یا سگریٹ یا پان مصالحہ کے برعکس لذت کے لیے کھاتے ہیں۔جبکہ پہلے والا لذت یا تفریح کا سامان ہے (ضروری نہیں کہ صحت مند ہوں)، وہ ایسی مصنوعات کے زمرے میں نہیں آتے جن کے لیے صحت کی وارننگز کی ضرورت ہو۔‘