کرکٹ ’خطرناک موسمی زون‘ میں داخل ہو رہی ہے: ماہرین

جی ایس سی نیٹ ورک کی ہٹ فار سکس نامی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 2024 کے دوران 52 دن درجہ حرارت 37 ڈگری سے بلند رہا۔

رواں برس کے انڈین پریمیئر لیگ ٹورنامنٹ کے موسمیاتی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر کے بڑے کھلاڑیوں نے اس برس اپنے نصف میچز شدید گرمی یا خطرناک سمجھی جانے والی گرمی کے دوران کھیلے ہیں۔

جی ایس سی نیٹ ورک جو عالمی سطح پر مواصلاتی رابطوں اور موسمیاتی بحران پر تحقیق کرتا ہے کی 22 جولائی، 2025 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق رواں برس آئی پی ایل کے 36 فیصد میچز ’شدید گرمی‘ میں کھیلے گئے اور اس دوران موجود حدت ایک سنجیدہ خطرہ تھی۔ جبکہ 12 فیصد میچز ’خطرناک‘ گرمی میں کھیلے گئے جب ہیٹ سٹروک کا امکان بہت زیادہ تھا۔

یہ رپورٹ رواں برس آئی پی ایل کے 65 میچوں کے تجزیے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور میں سکول آف سپورٹس ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے ماہر مائیک ٹپٹن سمیت کئی سابق کرکٹرز کی رائے لی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک انڈیا کے تقریباً تمام بڑے کرکٹ سٹیڈیمز میں شدید گرمی والے ’خطرناک دنوں‘ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

جی ایس سی نیٹ ورک کی ہٹ فار سکس نامی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 2024 کے دوران 52 دن درجہ حرارت 37 ڈگری سے بلند رہا۔

ممبئی میں ایسے خطرناک دنوں کی تعداد میں 125 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ترواننتاپورم میں صرف 2024 میں ہی 100 سے زائد خطرناک گرمی کے دن ریکارڈ کیے گئے۔

یہ وہ دن ہوتے ہیں جب درجہ حرارت انسانی صحت کے لیے محفوظ حد سے تجاوز کر جاتا ہے، جس سے گرمی سے متعلق بیماریوں کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

یہ رجحان صرف انڈیا تک محدود نہیں بلکہ کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک جیسے پاکستان، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی شدید گرمی کے دنوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب دنیا بھر میں شدید درجہ حرارت سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے اور بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کو متاثر کر رہا ہے۔

وِمبلڈن کے تاریخ کے گرم ترین ابتدائی دن سے لے کر امریکہ میں کلب ورلڈ کپ کے میچز تک، جو شدید گرمی میں کھیلے گئے۔

اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ 2025 ریکارڈ پر موجود گرم ترین تین سالوں میں شامل ہونے والا ہے، اور ماہرین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تین فوسل فیولز کوئلہ، گیس اور تیل کا جلایا جانا ہے۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے کرکٹ کھیلنے والی کوئی بڑی قوم محفوظ نہیں رہی۔

انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، کیریبین اور برطانیہ سب مختلف اقسام کی موسمی شدتوں کا سامنا کر رہے ہیں، جو نہ صرف پیشہ ورانہ کرکٹ بلکہ نچلی سطح کے کھیل پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔

سابق ویسٹ انڈین کرکٹر ڈیرن گنگا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ آج کرکٹ کو اپنی سب سے بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ فارمیٹس، ٹی وی معاہدے یا سکرینز کی دنیا میں توجہ حاصل کرنے کی جنگ کو ایک طرف رکھ دیں۔  یہ چیلنج وجودی نوعیت کا ہے اور یہ تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کی صورت میں سامنے آیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’میں نے جھلسا دینے والی گرمی میں کرکٹ کھیلی ہے اور مجھے آج بھی گرمی سے چکر آنا، متلی، پٹھوں میں کھچاؤ اور ہیٹ سٹروک جیسے احساسات یاد ہیں۔

’میں نے شدید اور غیر متوقع موسم سے پیدا ہونے والی تباہی، مایوسی اور غیر یقینی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور یہ حالات آنے والی نسل کے کھلاڑیوں، شائقین اور کلبز کے لیے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔‘

آئی پی ایل کا حصہ رہنے والے آسٹریلوی کھلاڑی ایشٹن ٹرنر کہتے ہیں کہ ’ہم کرکٹ کو ان جگہوں سے الگ نہیں کر سکتے جہاں ہم یہ کھیل کھیلتے ہیں۔ کھلے آسمان تلے، قدرتی گھاس پر، ایسے حالات میں جو پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے بدل رہے ہیں۔

’بطور کھلاڑی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ موسمی شدت پہلے ہی کھیل کو کس طرح متاثر کر رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کرکٹ موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کو تسلیم کرے۔ نہ صرف کھیل کے مستقبل کے لیے بلکہ ان کمیونٹیز اور ممالک کے لیے بھی جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم مزید خاموش تماشائی بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘

سابق انڈین کرکٹر محمد کیف کا کہنا ہے کہ ’ہم سب اس پر بات کرتے ہیں۔ میرے ساتھی کھلاڑی اور میں دیکھ رہے ہیں کہ کرکٹ اب پہلے جیسی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ کچھ خوفناک بھی ہے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم یہ حالات کتنے بگڑ سکتے ہیں۔‘

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی  سیلوِن ہارٹ  کہتے ہیں کہ ’ناقابلِ پیش گوئی، خطرناک، اور تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا باؤنسر ہے جسے سمجھنے میں اگر غلطی ہوئی، جیسا کہ کئی بلے باز میلکم مارشل کے سامنے کر چکے ہیں، تو اس کا نقصان دیرپا ہوگا۔

’کوئی بھی کرکٹ کھیلنے والی قوم اس سے محفوظ نہیں۔ میدان ناقابلِ استعمال ہوتے جا رہے ہیں، سیزن کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اور شدید گرمی کھلاڑیوں اور شائقین دونوں کے لیے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’کرکٹ موسمیاتی تبدیلی سے بچ نہیں سکتی لیکن یہ اس میں فرق ضرور لا سکتی ہے۔ اپنی عالمی پہنچ اور پرجوش شائقین کی بدولت، یہ کھیل ایک حقیقی تبدیلی کی ترغیب دینے کی منفرد صلاحیت رکھتا ہے۔

’نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ اداروں تک، جن لوگوں کو اس کھیل سے محبت ہے اور جو اس کی قیادت کرتے ہیں، اُنہیں ایک پائیدار مستقبل کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل