بالی وڈ کی 2013 کی ایک ہٹ فلم کو مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ خوشگوار انجام کے ساتھ دوبارہ ریلیز کیا جا رہا ہے، جس کی اطلاع نہ تو فلم کے اداکاروں کو دی گئی اور نہ ہی ہدایت کار کو۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ ہندی رومانوی ڈرامہ فلم ’رانجھنا‘ جنوبی انڈین ریاست تمل ناڈو میں یکم اگست کو دوبارہ سینیما گھروں میں پیش کی جا رہی ہے، جہاں اسے اس کے تمل زبان کے ڈب شدہ عنوان ’امبیکاپتی‘ کے تحت دکھایا جائے گا۔ اس بار فلم کا انجام مصنوعی ذہانت کی مدد سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
یہ فلم ہدایت کار آنند ایل رائے کی ہدایت کاری میں اور ایروس انٹرنیشنل کی پروڈکشن میں بنی تھی۔ فلم میں تمل اداکار دھنوش نے ہندی فلموں میں قدم رکھا تھا، جب کہ ان کے ساتھ سونم کپور نے مرکزی کردار نبھایا۔ فلم کی کہانی ایک ہندو لڑکے کندن (دھنوش) پر مبنی ہے، جو وارانسی کا رہائشی ہے اور اپنی ہمسایہ مسلمان لڑکی زویا (کپور) سے بچپن سے محبت کرتا ہے۔
فلم کے اصل ورژن کا اختتام المیہ تھا، جس میں کندن کی موت ہو جاتی ہے۔ ہدایتکار رائے کے مطابق یہ اختتام فلم کے جذباتی اثر کے لیے نہایت اہم تھا۔ تاہم نئے ورژن میں اختتام کو بدل دیا گیا ہے اور کندن کو زندہ دکھایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایروس کے چیف ایگزیکٹو پردیپ دویدی کے مطابق، نیا اختتام فلم کو ایک ’نئے جذباتی زاویے‘ سے پیش کرنے کے لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ نئے علاقائی ناظرین کو متوجہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایروس فلم کا ’ اکلوتا اور مکمل حقوق‘ کا مالک ہے، اور ہدایت کار رائے، دھنوش اور کپور جیسے تخلیقی افراد نے اپنے معاہدوں میں مستقبل کی کسی بھی ریلیز یا ترمیم میں شرکت کے ’اخلاقی حقوق‘ سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
انہوں نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ اے آئی کے ذریعے دوبارہ ریلیز کیا جانا ’صنعت بھر میں رائج ان رجحانات کے مطابق ہے جہاں مشہور فلموں کو متبادل ورژنز، ڈائریکٹرز ایڈیشنز یا ڈیجیٹل ری ماسٹرڈ شکل میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے، یہ متبادل کے طور پر نہیں بلکہ یادگاری یا تخلیقی انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جنریٹیو اے آئی ایک طاقت ور نیا ذریعہ ہے جسے اگر احتیاط اور شفافیت کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو اصل اثر کو ختم کیے بغیر کہانی کی ثقافتی اہمیت بڑھا سکتا ہے۔‘
رائے، جو اپنی کمپنی کلر ییلو پروڈکشنز کے ذریعے رانجھنا کے شریک پروڈیوسر تھے، نے اس اقدام کو ’غیر ذمہ دارانہ اور ایک خوف ناک، غیر حقیقی تجربہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے ایک معروف بین الاقوامی فلم انڈسٹری جریدے ’سکرین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’مجھے چند دن پہلے سوشل میڈیا پرایک اعلان سے اس بات کا پتا چلا۔ لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ فلم کے انجام کو کیوں بدلا جا رہا ہے۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘
ہدایت کار نے کہا کہ نہ انہیں اور نہ ہی فلم کے مرکزی اداکاروں سے اس اے آئی تبدیلی سے متعلق کوئی مشورہ لیا گیا یا مطلع کیا گیا۔
انہوں نے این ڈی ٹی وی کو بتایا: ’رانجھنا کو کسی نئے انجام کی ضرورت نہیں تھی۔ اس میں خلوص، سچائی تھی۔ یہ ایک کلٹ فلم بنی کیونکہ لوگوں نے اس کی خامیوں اور سچائی کے ساتھ اس سے تعلق جوڑا۔ اس کا انجام بغیر کسی مشاورت کے بدل دینا صرف فلم ہی نہیں، بلکہ ان مداحوں کے اعتماد کی بھی خلاف ورزی ہے جنہوں نے 12 برسوں سے اسے اپنے دل میں بسایا ہوا ہے۔
’ایروس کے یہ اقدامات ایک خطرناک راستہ کھولتے ہیں۔ یہ تخلیق کاروں کے اخلاقی حقوق پر اثر انداز ہونے والے قانونی اور اخلاقی سوالات جنم دیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ انہوں نے اداکاروں کی کارکردگی کو ان کی رضامندی کے بغیر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا! وہ ایک فلم کی ریلیز کے تقریباً ایک عشرے بعد کسی اداکار کے کام کو ڈیجیٹل طور پر کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟‘
دویدی نے کہا کہ ایروس نے رائے کے تحفظات کا ’خندہ پیشانی اور شفافیت‘ سے جواب دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی نشان دہی کی کہ یہ اعتراضات اس قانونی کارروائی کے دوران سامنے آئے ہیں جو کمپنی نے رائے اور ان کی پروڈکشن کمپنی کے خلاف مالی بے ضابطگیوں اور بدانتظامی کے الزامات پر دائر کی ہے۔
دی انڈیپنڈنٹ نے رائے، دھنوش اور کپور کے نمائندوں سے تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
رانجھنا نے 2013 میں اپنی ریلیز کے وقت انڈیا میں تنقیدی اور تجارتی کامیابی حاصل کی تھی، تاہم فلم کے متنازعہ صنفی پہلوؤں اور مرکزی کردار کی جنونی محبت پر بھی بحث ہوئی۔ یہ فلم تقریباً 36 کروڑ روپے کے بجٹ سے بنی تھی اور دنیا بھر میں تقریباً 105 کروڑ روپے کا بزنس کیا۔
© The Independent