لاہور کے تین ابتدائی سوئمنگ ٹینک

بیسویں صدی کے آغاز میں نہانے کے تالاب کو سوئمنگ پول کی بجائے ’سوئمنگ ٹینک‘ کہا جاتا تھا اور لاہور شہر میں تین اداروں کے سوئمنگ ٹینک معیاری تھے۔

لاہور میں گورنمنٹ کالج، دیانند اینگلو ویدک ہائی سکول اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سوئمنگ ٹینک معیاری تصور کیے جاتے تھے (پبلک ڈومین)

گورنمنٹ کالج (جی سی) لاہور کے میگزین ’راوی‘ کے ابتدائی شمارے لاہور کی تاریخ کا آئینہ ہیں۔ یہ آئینہ تاریخ کی آغوش میں دم توڑتے نقوش کی پناہ گاہ ہے۔

پچھلے دنوں راوی کے ایک شمارے میں جی سی کے ’سوئمنگ ٹینک‘ کے بارے میں دلچسپ شذرہ پڑھا۔ مختلف شماروں سے ملنے والی معلومات ایک پُرلطف کہانی کو ترتیب دیتی ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں نہانے کے تالاب کو سوئمنگ پول کی بجائے ’سوئمنگ ٹینک‘ کہا جاتا تھا اور لاہور شہر میں تین اداروں کے سوئمنگ ٹینک معیاری تھے۔ ان میں جی سی (1864) کے علاوہ دی اے وی یعنی دیانند اینگلو ویدک ہائی سکول (1886) اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (1860) کے ٹینک شامل تھے۔ 1947 تک تیراکی کے مقابلے انہی تین تالابوں میں ہوا کرتے تھے۔

دوسرے شہروں کے طلبہ بھی اس غرض سے لاہور آتے تھے۔ ان میں سناتن دھرم کالج امرتسر کے طالب علم سرِ فہرست تھے۔ سناتنی ودیارتھی ہر سال گرمیوں میں آتے اور معائنے کے بعد تیراکی کا پروانہ پاتے۔

انگریز معالج کی جانچ اور اجازت کے بغیر جی سی کے تالاب میں اترنا منع تھا۔ کالج کا تالاب بلا ناغہ کلورین سے صاف کیا جاتا۔ شام کا وقت انگریز افسروں کے بچوں کے لیے مختص تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاص موقعوں پر خواتین کی تیراکی کا بندوبست بھی ہوتا تھا، لیکن طالبات اس تالاب میں نہانے سے کتراتی تھیں۔ بعد ازاں مسز ڈنیکلف نے 22000 کی خطیر رقم جمع کی اور خواتین کے لیے الگ تالاب تعمیر کروایا۔ یہ 1937 کی بات ہے۔ خواتین کا ٹینک چوبرجی کے قریب واقع تھا۔

جی سی لاہور کا تالاب جمالیات کا مظہر تھا۔ اسے 1909 میں تعمیر کیا گیا۔ تالاب سقَف دار تھا۔ اس کے کنارے خوش رنگ پھولوں کے تختے تھے۔ دائیں بائیں سبزے کی روشیں آراستہ تھیں۔ روشوں کی شادابی کا خاص خیال رکھا جاتا اور کالج کے پرنسپل خود تالاب کا معائنہ کرتے۔

پہلے ہندوستانی پرنسپل پروفیسر جی ڈی سوندھی کی چمن بندی کا ذوق مشہور تھا۔ مشہور ہے کہ وہ صبح سویرے تالاب کی روشوں پر ٹہلتے اور چائے نوش کرتے۔ ان کے ہمراہ مالیوں کی پلٹن ہوتی۔ گلگشت کے دوران پھولوں اور پتیوں کی کیفیت پر تبصرہ ہوتا۔ پروفیسر سوندھی نئے پیڑ پودوں کے جُویا رہتے۔ ان کے دور (1939 تا 1945) میں جی سی میں اَن گنت درخت لگائے گئے۔

جی سی کے تالاب کی مشرقی سمت آرام دہ بینچ بچھائے گئے تھے۔ یہ بینچ جسم سُکھانے کے ساتھ ساتھ سردیوں میں دھوپ سیکنے کے کام بھی آتے تھے۔ کنگ ایڈورڈ (میڈیکل کالج) کے تالاب سے پہلے تک جی سی کا ٹینک بہترین مانا جاتا تھا۔ 1927 میں بروم ہاسٹل کی تعمیر کے بعد کنگ ایڈورڈ کا تالاب بنایا گیا۔ یہ تالاب تا حال موجود اور زیرِ استعمال ہے۔

یہ جی سی کے ٹینک کی طرح سقَف دار ہے، لیکن جی سی کے ٹینک کے بر خلاف اس کے گرد چار دیواری بھی ہے۔ اس تالاب کی تہہ میں پہلی بار رُوپہلی روشنیوں کا استعمال کیا گیا۔ لاہور میں یہ انداز پہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ یہ روشنیاں تالاب کو جاذبِ نظر بنانے کے علاوہ صفائی کے عمل میں بھی معاون ہوتی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ کنگ ایڈورڈ کے بروم ہاسٹل میں واقع (موجودہ نیو ہاسٹل) تالاب کی چھت جی سی کے ٹینک کی چھت کے مشابہ ہے۔ جی سی کا تالاب عرصہ ہوا معدوم ہو گیا۔ کنگ ایڈورڈ کے تالاب سے لاہور کے پہلے سوئمنگ ٹینک (جی سی) کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سرخ اینٹوں سے بنے مستطیل شکل کے اس تالاب پر مضبوط فولادی چادریں بچھائی گئی ہیں۔ تالاب کا رقبہ ایک کنال سے زیادہ ہے۔ نہانے کا حوض درمیان میں واقع ہے، جس کے چاروں کناروں پر بیٹھنے کے لیے نشستیں مہیا  کی گئی ہیں۔

دیانند اینگلو ویدک سکول کے سوئمنگ ٹینک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ قیاس ہے کہ اس کا مقام وہی ہو گا، جہاں آج دی اے وی کی عمارت واقع ہے۔

دی اے وی سکول اور کالج میں جسم کی صفائی (شریر کی سوستھا) پر خاص زور دیا جاتا تھا۔ یہ آریا سماج کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے۔ معروف مؤرخ اور ہندوستانی فنونِ لطیفہ کے ماہر پران نیویل (Pran Navile) نے دی اے وی سکول کے بارے میں دل چسپ معلومات مہیا کی ہیں۔

یہ بات اپنے تیئں دل چسپ ہے کہ جی سی اور کنگ ایڈورڈ دونوں ادارے انگریزی حکومت کے زیرِ انتظام تھے، لہذا ان میں سوئمنگ ٹینک کی موجودگی باعث تعجب نہیں۔ تاہم دی اے وی ہائی سکول میں نہانے کا تالاب باعثِ حیرت و مسرت ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’(اساتذہ کے مطابق) ہمیں اپنی نفسانی خواہشات کو مکمل طور پر دبانا چاہیے تاکہ وِیریا (مادہ حیات) کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یہی انسانی توانائی کا منبع ہے ، چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی۔

’تاہم سکول کے لڑکے ان پند و نصائح سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ایسے طلبہ اُس کڑے طبّی معائنے سے خوف میں مبتلا رہتے تھے، جس میں ہمیں اپنے کپڑے اتار کر جسم دکھانے کو کہا جاتا تھا۔‘

گمانِ غالب ہے کہ دی اے وی سکول میں تیراکی کو توانا جسم کی ضمانت سمجھ کر انجام دیا جاتا ہو گا۔ یہ بات اپنے تیئں دل چسپ ہے کہ جی سی اور کنگ ایڈورڈ دونوں ادارے انگریزی حکومت کے زیرِ انتظام تھے، لہذا ان میں سوئمنگ ٹینک کی موجودگی باعث تعجب نہیں۔ تاہم دی اے وی ہائی سکول میں نہانے کا تالاب باعثِ حیرت و مسرت ہے۔

دی اے وی سکول کی بنیاد مہاتما ہنس راج اور گوردتا ودیارتھی نے رکھی تھی۔ یہ دونوں صاحبان تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے یہ تالاب یقیناً دیسی طلبہ کی صحت کو ملحوظ رکھ کر بنایا ہو گا۔

بہر صورت ان تینوں اداروں سے لاہور میں تیراکی کے تالاب (سوئمنگ ٹینک) کا چلن ہوا۔ ان کی داستانیں راوی کے پرانے شماروں میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہ شمارے لاہور کے طبعی جغرافیے کو جاننے کے لیے بنیادی ماخذ ہیں اور خوش قسمتی سے محفوظ رہ گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ