اقوام متحدہ نے جمعرات کو جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکام ایران اور پاکستان سے جبری طور پر واپس افغانستان بھیجے گئے افغان شہریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خلاف ورزیوں میں تشدد، غیر قانونی حراست اور شخصی تحفظ کو خطرات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ’ملک واپس آنے والے وہ افراد جو طالبان حکام کی انتقامی کارروائیوں یا دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خصوصی خطرے سے دوچار ہیں، ان میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا کارکنان اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ان خلاف ورزیوں میں تشدد، غیر انسانی سلوک، غیر قانونی گرفتاری اور حراست اور جان کے تحفظ کو لاحق خطرات شامل ہیں۔‘
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مرتب کی ہے، جو 49 واپس آنے والے افغان شہریوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
2023 سے ایران اور پاکستان میں شروع کی گئی ملک بدری کی وسیع مہمات کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجا گیا ہے۔
صرف 2025 میں اب تک 19 لاکھ سے زائد افراد، جن میں اکثریت ایران سے واپس بھیجے گئے افراد کی ہے، افغانستان واپس آ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (UNHCR) نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک تقریباً 30 لاکھ افراد واپس آ سکتے ہیں، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ان افغان شہریوں کے ساتھ ان کی مخصوص شناخت یا پس منظر کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں، جن میں خواتین، میڈیا کارکن، سول سوسائٹی کے اراکین، اور سابق غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت سے وابستہ افراد شامل ہیں، جو 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔
طالبان حکومت اس سے پہلے بدسلوکی کے الزامات کی تردید کر چکی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے نیٹو فورسز اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا ’کسی کو بھی ایسے ملک واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی پس منظر کی بنیاد پر انتقام یا ظلم و ستم کا سامنا ہو سکتا ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا ’افغانستان میں یہ خطرہ خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے زیادہ سنگین ہے، جن پر محض ان کے صنف کی بنیاد پر ایسے اقدامات نافذ کیے جا رہے ہیں جو بنیادی طور پر ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔‘