سائنس دانوں نے جھریاں پڑنے کا راز معلوم کر لیا

نیویارک کی بنگھمٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جلد پر جھریاں ایسے ہی پڑتی ہیں جیسے آپ کی کوئی ٹی شرٹ مسلسل استعمال کے باعث پھیل جاتی ہے۔

ایک ایشیائی معمر خاتون کا چہرے اور آنکھوں کے گرد جھریاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں (اینواتو)

محققین نے بالآخر جان لیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری جلد پر جھریاں کیوں پڑتی ہیں اور اس بات کی وضاحت میں لچک دار مادہ سِلی پَٹی (Silly Putty) مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

نیویارک کی بنگھمٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تجرباتی شواہد سے پتا چلا کہ جلد پر جھریاں پڑنے کا عمل بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے آپ کی کوئی پسندیدہ ہوڈی یا ٹی شرٹ مسلسل استعمال کے باعث پھیل جاتی ہے۔

’دراصل ہوتا یہ ہے کہ بوڑھی ہوتی جلد ایک سمت میں کھنچتی ہے اور دوسری سمت میں سکڑتی ہے، پھر ڈھیلی پڑ کر تہیں اور شکنیں بناتی ہے۔

’عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سکڑاؤ بڑھتا جاتا ہے اور نتیجتاً جلد پر گہری لکیریں اور سلوٹیں نمودار ہوتی ہیں۔

بائیو میڈیکل انجینیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گائے جرمن نے وضاحت کی کہ ’مثال کے طور پر اگر آپ سلی پٹی کو کھینچیں تو یہ افقی سمت میں لمبی ہوتی جاتی ہے، لیکن دوسری سمت میں سکڑتی اور پتلی ہوتی جاتی ہے۔ بالکل یہی عمل ہماری جلد میں بھی ہوتا ہے۔‘

کلیولینڈ کلینک کے مطابق تقریباً 25 سال کی عمر کے بعد جلد پر جھریاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔

سائنس دان طویل عرصے تک یہ سمجھتے رہے ہیں کہ جلد پر جھریاں پڑنے کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، مختلف بیماریوں کے اثرات اور دھوپ سے ہونے والا نقصان شامل ہیں۔

عمر بڑھنے کے ساتھ جلد کے خلیے نسبتاً سست رفتاری سے تبدیل ہوتے ہیں جس سے جلد کی بیرونی سطح پتلی ہونے لگتی ہے اور نتیجتاً جھریاں بن جاتی ہیں۔

چہرے پر پڑنے والی لکیریں، جیسے پیشانی اور تیوری پر ابھرنے والی شکنیں، زیادہ تر ہمارے قابو سے باہر ہوتی ہیں کیوں کہ یہ بار بار کے عضلاتی حرکات سے بنتی ہیں۔

ماضی میں ہونے والے مطالعات جن میں کمپیوٹر ماڈلز کا استعمال کیا گیا، ان سے بھی معلوم ہوا کہ عمر بڑھنے کے دوران جلد کی درمیانی تہہ کی ساخت اور لچک جیسی میکینیکی خصوصیات میں تبدیلیاں آتی ہیں۔

اس تہہ میں ایلاسٹن اور کولیجن نامی پروٹین موجود ہوتی ہیں اور اسی تہہ میں بالوں کی جڑیں، خون کی شریانیں اور پسینے کے غدود بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم اب تک ان تبدیلیوں کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا گیا تھا۔

جرمن کہتے ہیں ’جب میں نے اس شعبے میں قدم رکھا تو میرا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کیا میں عمر بڑھنے کے اس عمل کو سمجھ سکتا ہوں؟

’کیونکہ جب میں ٹی وی، ریڈیو، آن لائن یا دکانوں کو دیکھتا ہوں تو جلد کی صحت بہتر بنانے کے لیے مجھے ہزاروں چیزیں بتائی جاتی ہیں۔

’میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس میں سے درست کیا ہے اور غلط کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان نتائج تک پہنچنے کے لیے جرمن اور ان کی ٹیم نے 16 سے 91 برس کے افراد کی جلد کے سات چھوٹے ٹکڑوں کو کم طاقت کے ٹینسومیٹر کی مدد سے کھینچا اور جلد پر قدرتی طور پر پڑنے والی قوتوں کا تجربہ کیا۔

ٹینسومیٹر دراصل کسی بھی مادے کو توڑنے کے لیے درکار زیادہ سے زیادہ قوت کو ناپتا ہے۔ تجربے میں استعمال ہونے والی جلد رضاکارانہ سرجری اور انسانی لاشوں سے حاصل کی گئی۔

ان تجربات میں محققین نے دیکھا کہ نوجوانی میں جلد کی میکینیکی خصوصیات بالکل الگ طرح کی ہوتی ہیں، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ خصوصیات بگڑنے لگتی ہیں۔

جرمن نے کہا کہ بڑھاپے میں پہنچ کر جلد کی حالت کچھ ’عجیب سی‘ ہو جاتی ہے۔

جرمن کے بقول ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جلد کی حالت خراب ہوتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جلد زیادہ تر اطراف میں پھیلنے لگتی ہے اور یہی چیز اصل میں جھریاں بننے کا باعث بنتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جلد تناؤ سے بالکل آزاد حالت میں نہیں ہوتی، بلکہ معمولی حد تک پہلے سے کھنچی ہوئی ہوتی ہے، لہٰذا جلد کے اندرونی حصے میں قدرتی طور پر ایسی قوتیں موجود ہوتی ہیں جو اسے جھریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔‘

یہ تحقیق حال ہی میں جرنل آف دی مکینیکل بیہیویئر آف بایومیڈیکل مٹیریلز میں شائع ہوئی۔ تاہم اس تحقیق میں یہ نکتہ شامل نہیں کہ ان قوتوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ اور بھی کئی عوامل ہیں جو وقت کے ساتھ جلد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دھوپ میں زیادہ وقت گزارنے سے نہ صرف جلد جل جاتی ہے بلکہ یہ قدرتی عمر رسیدگی کی طرح جلد کو قبل از وقت بوڑھا بھی کر دیتی ہے۔

جرمن نے خبردار کیا کہ ’اگر آپ زندگی کا زیادہ حصہ باہر کام کرتے ہوئے گزاریں گے تو آپ کی جلد دفتری ملازمین کے مقابلے میں زیادہ بوڑھی اور شکن آلود ہوگی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق