کراچی کے ساحل پر سیپیوں کے اچانک جمع ہونے کی وجہ کیا ہے؟

کراچی کے مختلف ساحلی علاقوں، خصوصاً کلفٹن کے ساحل پر حالیہ دنوں میں سیپیوں کی غیر معمولی تعداد دیکھنے میں آئی ہے جسے ماحولیاتی ماہرین سمندر کے اندرونی نظام میں تبدیلی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔

کراچی کے مختلف ساحلی علاقوں، خصوصاً کلفٹن کے ساحل پر حالیہ دنوں میں سیپیوں کی غیر معمولی تعداد دیکھنے میں آئی ہے، جس نے شہریوں کی توجہ تو حاصل کی ہی، ساتھ ہی ماحولیاتی ماہرین کی بھی دلچسپی بڑھا دی ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) اور ماحولیاتی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ماہرین اس صورت حال کو سمندر کے اندرونی نظام میں تبدیلی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سیپیوں کا یوں اچانک سطح سمندر پر آ جانا ایک قدرتی عمل ہے، جو عموماً اس وقت رونما ہوتا ہے جب سمندر میں تیز ہوائیں، بارشیں اور طغیانی آتی ہے۔‘

ان کے مطابق، مون سون کے اس موسم میں جب لہریں شدت اختیار کرتی ہیں تو سمندر کی تہہ سے ہلکی اور بے حرکت مخلوقات کو سطح پر لے آتی ہیں، جن میں اکثر سیپیاں شامل ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کبھی کبھار سمندری کرنٹس کی سمت میں تبدیلی بھی ان مخلوقات کو ساحل کی طرف دھکیل دیتی ہے، جس کی جھلک ان دنوں کراچی کے ساحل پر دیکھی جا سکتی ہے۔‘

کلفٹن کا ساحل: منفرد ساخت، زندہ سیپیوں کی موجودگی

ماہرین کے مطابق کلفٹن کا ساحل دیگر پاکستانی ساحلی علاقوں سے مختلف ہے، جہاں کی ریت میں کیچڑ بھی شامل ہے اور مائیکا نامی چمک دار ذرات بھی پائے جاتے ہیں جو اسے ماحولیاتی طور پر ایک خاص مقام دیتے ہیں۔

’کیونکہ یہ ایک ایسا ماحول بناتا ہے جس میں کئی قسم کی سمندری مخلوقات زندہ رہ سکتی ہیں۔‘

معظم خان نے بتایا کہ ’اس وقت ساحل پر جو سیپیاں ملی ہیں، ان میں سے 20 سے 25 فیصد تک زندہ ہیں، جو اس واقعے کو پہلے سے مختلف بناتی ہیں۔‘

سیپیوں کی برآمد اور تجارتی اہمیت

پاکستان کے ساحلی پانیوں میں سیپیوں کی 100 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جن کی نہ صرف سائنسی بلکہ تجارتی اہمیت بھی ہے۔ ماہی گیر ان سیپیوں کو جمع کر کے بیرونی ممالک کو برآمد کرتے ہیں، جن میں ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور خلیجی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں سیپیوں کا گوشت بطور غذا استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہی گیروں کے مطابق سب سے زیادہ مانگ رکھنے والی سیپی کو مقامی زبان میں ’برگر‘ کہا جاتا ہے، جس کا اصل نام بلڈ کلیم ہے۔ اس سیپی کے خول سے خون جیسے سرخ مائع کا اخراج ہوتا ہے، جو اسے منفرد اور قیمتی بناتا ہے۔ اس کا وزن اور گوشت دیگر سیپیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، اسی لیے یہ برآمدات میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ساحل پر سیپیوں کا آنا کسی ماحولیاتی تباہی کی علامت نہیں بلکہ ایک قدرتی تبدیلی ہے جو وقتاً فوقتاً رونما ہوتی رہتی ہے۔ تاہم اس بار جو چیز اسے مختلف بناتی ہے وہ ساحل پر زندہ سیپیوں کی غیر معمولی تعداد ہے، جو آئندہ کے لیے مزید سائنسی مشاہدے اور تحقیق کی متقاضی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات