چالیس کا ہندسہ آ گیا، کیا زندگی کو بریک لگا دیں؟

اصل زندگی چالیس سال کی عمر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چالیس سال کی عمر اتنی ہی خطرناک ہے جتنی ٹین ایج۔

15 مئی 2025 کو کراچی میں خواتین چھتری کے ذریعے خود کو گرمی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے (اے ایف پی)

’عمر کیا بڑھنی شروع ہوئی، شوق جوانوں والے ہو گئے! بننا سنورنا دیکھا ہے؟ یہ کوئی عمر ہے شادی کی؟ جب وقت تھا، تب تو کی نہیں اب کیا خاک زندگی بہتر گزرے گی؟‘

’ارے یہ عمر آرام کی ہے، تم کیا چلیں پہاڑوں کی سیر کرنے؟ کہیں گر گرا گئی تو ہڈیاں بھی ساتھ نہیں دیں گی۔‘

ایسے کتنے جملے ہیں جو آپ نے اپنے قریبی رشتوں یا جان پہچان کے لوگوں سے سنے ہوں گے۔ خاص کر وہ لوگ جو خاندان سے ہوں اور آپ کی اصل عمر سے واقف ہوں، وہ آپ کو یہ احساس شدت سے دلائیں گے کہ اب آپ کی عمر چالیس یا اس سے زیادہ ہو گئی ہے تو اب آپ کو جینے کا حق نہیں ہے۔

میرا ماننا ذرا مختلف ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کی اصل زندگی چالیس سال کی عمر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے کیونکہ اس سے قبل آپ کی زندگی نہ صرف دوسروں کے کنٹرول میں ہوتی ہے بلکہ آپ کے کیے جانے والے زیادہ تر فیصلے، جذبات یا دوسروں کی ترجیحات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چالیس سال کی عمر اتنی ہی خطرناک ہے جتنی ٹین ایج۔

جب بھی کوئی لڑکا یا لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس وقت اس میں توانائی، جوش و جذبہ، غصہ، جذباتیت، جنون سب ہی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چالیس کی عمر میں داخل ہوتے ہی زیادہ تر لوگ خاص کر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندے اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا کیا کیا جس پر وہ فخر کرسکیں یا اسے یاد کر کے خوش ہوسکیں؟

زیادہ تر افراد تو نا امیدی، اداسی، اکیلے پن اور ناکامی کی کیفیات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ شاید یہ احساس اتنا حاوی نہ ہو اگر اس کا احساس ہمیں ہمارے اردگرد کے لوگ نہ دلائیں اور یہی باتیں بعض اوقات، ڈپریشن، سوشل انگزائیٹی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں پہنچنے والے لوگ اس سوچ  سے خود کو آزاد نہیں کروا پاتے کہ انہوں نے اپنی عمر کا ایک بیشتر حصہ ضائع کیا ہے۔

سماج کے مطابق چالیس سال کی عمر میں تو آپ کو صرف یہ سوچنا ہے کہ اب آپ جو سال جی رہے ہیں، وہ بونس ہیں۔ آپ کسی بھی وقت مر سکتے ہیں اس لیے خود احتسابی کا عمل شروع کریں اور ناکامیاں گنیں۔

اس موضوع پر ایک بار مجھے ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ان کے مطابق انسان اصل میں چالیس کی عمر میں ہی میچور ہوتا ہے۔ اس کا حوالہ انہوں نے یوں دیا کہ اللہ پاک نے جب رسول پاک کو نبوت سے نوازا تو اس وقت ان کی عمر بھی چالیس برس تھی، کیونکہ اس عمر میں انسان کی دانش مندی، دانائی پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہوتی ہے۔ اس عمر میں ہمارے پاس وقت ہوتا ہے جس میں ہم اپنے ساتھ وقت گزار سکیں۔

ڈاکٹر اقبال کے مطابق چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والے مرد اور خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت، سونے جاگنے کے معمول، ورزش، تھراپی، میڈی ٹیشن پر خاص توجہ دیں اور خود کو مثبت رکھنے کی کوشش کریں۔ غیر ضروری باتوں، تنازعات اور بحث، جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہو، اس سے دور رہیں اور خود کو مصروف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

یہ رائے تو ایک ماہرِ نفسیات کی ہے لیکن میرا ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ آپ اپنے کیریئر میں یا کسی بھی شعبے میں کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں، لوگ ڈھونڈ کر آپ کی زندگی کی کوئی ایسی کمی نکالیں گے، جسے جتا کر وہ آپ کو یہ بتاسکیں کہ چونکہ یہ کمی ہے، اس لیے تم کچھ بھی نہیں ہو۔

جیسے بہت سے ایسے جوڑے جن کی شادی کو کافی ٹائم ہوچکا ہے لیکن ان کی اولاد نہیں ہے، انہیں یہ بتایا جاتا کہ وہ اپنا وقت گنوا رہے ہیں، اگر اور وقت نکل گیا تو وہ پچھتائیں گے۔

ایک بار میرے حلقہ احباب میں ایک خاتون نے مجھے ایک قصہ سنایا کہ وہ کچھ ماہ قبل اپنے کسی عزیز کی شادی میں گئیں تو انہیں وہاں آئیں ایک دور پرے کی رشتے دار خاتون، جن سے ان کی ملاقات کوئی پندرہ برس بعد ہو رہی تھی، نے بھرے مجمعے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شادیوں میں شرکت کر رہی ہو، خود کب شادی کرو گی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس کے جواب میں خاتون نے کہا کہ جب وقت آئے گا تو ہو جائے گی۔ اس پر مہمان خاتون نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ چالیس سال کی ہوگئی ہو، ابھی بھی وقت کا انتظار ہے، حیرت ہے بھئی۔ میری دوست نے بتایا کہ اس ایک جملے نے ان کا اعتماد سیکنڈز میں ڈھیر کردیا اور وہ چاہ کر بھی ان خاتون کو یہ نہ کہہ پائیں کہ ایک شادی نہیں ہوئی لیکن زندگی میں انہوں نے بہت کچھ ایسا بھی پایا ہے، جس کے سبب ان کی زندگی دوسری خواتین کی نسبت بہت بہتر ہے۔

اسی طرح میرے ایک اور دوست نے مجھے بتایا کہ وہ اب 44 برس کی عمر میں اس بات کو سمجھ پائے کہ مرد ہونے کی حیثیت سے انہیں ہمیشہ یہ بتایا اور سمجھایا گیا کہ مردوں کے پاس کپڑوں اور جوتوں میں سیاہ، گرے، براؤن رنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اب جب انہوں نے نئے دوست بنائے اور ان کے ساتھ سفر اور ٹریکنگ پر جانا شروع کیا، جو ان کے لیے ایک نیا تجربہ تھا تو اسی میں ان کی دوستی رنگوں سے بھی ہوئی۔

اب جب وہ روایتی جوتوں اور شرٹس سے نکل کر رنگوں کا انتخاب کرنے لگے ہیں تو انہیں اپنی بیگم اور آس پاس کے لوگوں سے یہ سننے کو مل رہا ہے کہ آخر اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ اس عمر میں کون سے نئے شوق چڑھے ہیں؟ کیا یہ ذاتی پسند ہے یا اس تبدیلی کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟ بقول ان کے، انہیں نہ صرف شک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ یہ سننے کو بھی ملا ہے کہ عمر کے اس حصے میں انہیں نوجوان بننے کا خیال آیا ہے۔

ان سب کہانیوں کے پس پردہ وہ سوچ ہے جو نسل در نسل پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی بیشتر خاندانوں میں بیٹیوں کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ کنواری لڑکیوں کا زیادہ سجنا سنورنا ٹھیک نہیں، ایسی لڑکیوں کو لوگ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔

اسی طرح بیٹوں کو بھی اس بات کا احساس کم عمری میں دلایا جاتا ہے کہ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر کمائیں اور جو تنخواہ انہیں ملے، اس سے خاندان سے جڑی ضروریات کو پورا کریں۔ اگر کوئی لڑکا اپنی کمائی کے کچھ حصے سے اپنے شوق پورا کرنا چاہے جیسے کپڑے، گھڑیاں، پرفیوم، مہنگی ٹائی، کھیل تو اسے بھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ وہ فضول خرچ اور خود پسند ہے۔ یہی سوچ ساری زندگی ان افراد کو اپنی ذات کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ لینے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔

میرا ذاتی تجربہ بھی کچھ ایسا ہی رہا،  میں نے میڈیا میں آنے کے کچھ برس بعد اپنی ہی ایک ہم عمر رپورٹر جو ہمیشہ رپورٹنگ کے دوران میک اپ کیے نظر آتی تھیں، سے یہ سنا کہ تم کم از کم کوئی ڈارک لپ سٹک یا لائنر تو لگاؤ کیمرے پر اچھی نظر آؤ گی۔

جب میں نے اسے بتایا کہ میری فیملی میں لڑکیوں کا بننا سنورنا پسند نہیں کیا جاتا اور اسی وجہ سے مجھے آئی لائنر لگانا نہیں آتا تو اس کا مارے حیرت کے منہ کھلا رہ گیا۔ مجھے ہلکا پھلکا میک اپ جس میں آئی لائنر اور لپ سٹک شامل ہے، استعمال کرتے ہوئے چند سال ہی گزرے ہیں اور پھر میں نے کہیں اپنے لیے کسی قریبی سے سنا کہ اب جب عمر بڑھ رہی ہے تو محترمہ کو برائٹ کلرز پہننے اور میک اپ کا خیال آنے لگا تاکہ عمر کم لگ سکے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو چالیس سال کی عمر میں جینا شروع کیا۔ مجھے یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ مجھ پر کون سا رنگ جچتا ہے اور کون سا رنگ پسند ہے۔ جسے میں مختلف فرسودہ سوچ کے تحت کئی برس نظر انداز کرتی رہی۔

 چالیس سال کی عمر ایک آزاد انسان کی زندگی ہے، جیسے ہمارے یہاں آزاد عورت کا تصور معاشرے نے اپنے حساب سے بنایا ہے۔ اگر کوئی عورت اکیلی رہتی ہے، اچھا پہننتی اوڑھتی ہے، اپنا سودا سلف لانے سے لے کر بیشتر ایسے کام جس میں اکثر مردوں کی ضرورت ہو، خود کرتی ہے تو اسے باغی، خودسر اور مادرپدر آزاد کے القاب دے دئیے جاتے ہیں۔

لیکن میں سمجھتی ہوں کہ عمر کے اس حصے میں جب آپ دنیا کی ٹھوکریں کھا چکے ہوں، طرح طرح کے رویے سہنے کے بعد لوگوں کی پہچان کر چکے ہوں، ایک ایسے انسان بن چکے ہوتے ہیں جو یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ کون سے کام ہیں، جو میرے ذہنی سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔

وہ کام کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ کچھ کے لیے دنیا گھومنا، اکیلے وقت گزارنا، فوٹوگرافی، فیشن، دوبارہ سے ڈگری لینے کا حصول، بزنس، شادی، نئے دوست بنانے سے لے کر بنا کسی فلٹر کے بات کرنا یا لکھنا بھی ہوسکتا ہے۔

لیکن وہی بات کہ سماج کے مطابق چالیس سال کی عمر میں تو آپ کو صرف یہ سوچنا ہے کہ اب آپ جو سال جی رہے ہیں، وہ بونس ہیں۔ آپ کسی بھی وقت مر سکتے ہیں اس لیے خود احتسابی کا عمل شروع کریں اور ناکامیاں گنیں۔

یہ معیارات معاشرے نے ازل سے بنا کر محفوظ کر دیے، جسے نافذ العمل بنانے کے لیے ہمارے اردگرد ایک فورس تیار ہے، جو ہمیں بتا سکے کہ ہمارے لیے اب کیا بچا ہے اور کیا نہیں۔ یہی گروہ آپ کو بتاتا ہے کہ اب آپ کے پاس آپشن محدود ہیں۔

آپ دیر سے شادی کر رہے ہیں تو اس کے نتائج کچھ اچھے ثابت نہیں ہوسکتے، یہ فیصلہ تو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر کوئی خاتون میچور عمر میں شادی کرلے تو یہی معاشرہ اس کے شادی کے جوڑے سے لے کر فوٹو سیشن تک پر تبصرے کرتا ہے، جس میں سب سے زیادہ کہا جانے والا جملہ بڈھی گھوڑی لال لگام ہوتا ہے۔

سماج کے مطابق چالیس سال کی عمر میں تو آپ کو صرف یہ سوچنا ہے کہ اب آپ جو سال جی رہے ہیں، وہ بونس ہیں۔ آپ کسی بھی وقت مر سکتے ہیں اس لیے خود احتسابی کا عمل شروع کریں اور ناکامیاں گنیں۔

اسی طرح اگر آپ نے اس عمر میں پڑھنے کا ارادہ کیا ہے تو آپ کو یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر یہ ڈگری آج سے پندرہ برس پہلے لی جاتی تو شاید یہ آپ کے کیریئر میں کام آتی۔ اسی طرح اگر آپ خوش لباسی، سیروتفریح یا دیگر شوق پر پیسے خرچ کر رہے ہیں تو ذرا ہاتھ روک لیں کیونکہ اب آپ بڑھاپے کی طرف جارہے ہیں، یہی پیسہ آپ کی صحت یا بڑھاپے کی تنہائی میں کام آسکتا ہے۔

اگر صاف لفظوں میں بات کی جائے تو معاشرے کی نظر میں اب چونکہ آپ  کی عمر چالیس کو پہنچ چکی ہے تو آپ کوجینا چھوڑ دینا چاہیے اور صرف یہ سوچنا چاہیے کہ آپ نے اس عمر تک پہنچنے میں کیا کیا کھویا ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس کے برعکس سوچیں، جیسے آپ نے کسی کو چاہا لیکن اس نے آپ کو عمر کے اس حصے میں چھوڑ دیا، جب آپ کو اس کی اشد ضرورت تھی تو کیا باقی زندگی اس دکھ اور ملال میں گزاری جائے؟ آپ پھر سے اعتبار اور محبت کرسکتے ہیں کیونکہ اس عمر میں کیے جانے والا اعتبار جذباتیت پر نہیں حقیقت پسندی کی بنیاد پر ہوگا۔

آپ دنیا گھومیں اور اسے ایک نئے زاویے سے دیکھیں، اپنے وہ شوق پورے کریں جو آپ کو ماضی میں کسی رکاوٹ یا مسائل کے سبب پورے کرنے نہیں دیے گئے کیونکہ انہیں پورا کرنے کے لیے یہ سب سے مناسب وقت ہے۔

اچھا پہنیں، اوڑھیں لوگوں کے لیے نہیں، خود کو خوش رکھنے کے لیے یہ سب کریں۔ اپنے ساتھ وقت گزاریں اور یہ سوچیں کہ آپ خوش قسمت ہیں جسے یہ سمجھنے اور سیکھنے کو ملا ہے کہ اصل میں آپ کیا ہیں اور کیا چیز آپ کو اچھا محسوس کروا سکتی ہے کیونکہ چالیس برس کے بعد آپ ایک نئی زندگی جیتے ہیں، جس میں آپ کو موقع ملتا ہے، وہ سب کرنے کا جو کبھی آپ کی خواہشات یا حسرت رہی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ