پاکستان میں ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان میں اس وقت ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے تیل اور دیگر درآمدات کے ریٹ بڑھ رہے ہیں اور حقیقی مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً دو سال مستحکم رہنے کے بعد اب ڈالر کیوں بڑھ رہا ہے؟

11 جنوری، 2022 کو کراچی میں لی گئی اس تصویر میں ایک کرنسی ڈیلر اپنی دکان پر امریکی ڈالرز گن رہا ہے (اے ایف پی)

ملکی معاشی ترقی کا درست اندازہ لگانے کے لیے ڈالر ذخائر اور ڈالر ریٹ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ڈالر ریٹ اور ذخائر میں کمی بیشی ہوتی ہے تو پوری ملکی معیشت پر اس کا اثر نظر آنے لگتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے تیل اور دیگر درآمدات کے ریٹ بڑھ رہے ہیں اور حقیقی مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً دو سال مستحکم رہنے کے بعد اب ڈالر کیوں بڑھ رہا ہے؟

اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ: ’ڈالر بڑھنے کی وجہ ایک مافیا ہے، جس میں چند کرنسی ایکسچینج کمپنیاں، بینکس، ایم ٹی اوز (منی ٹرانسفر آپریٹرز) اور سرکار شامل ہیں۔ سب مل کر ریٹ بڑھا رہے ہیں۔ ’مال بناؤ‘ تحریک چل رہی ہے۔

’جب سے بجٹ پاس ہوا ہے، ڈالر ریٹ مسلسل بڑھ رہا ہے، کیونکہ بجٹ میں ایکسچینج کمپنیوں کو بھی پی آر آئی (پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو) سکیم میں شامل کر لیا گیا ہے، جس سے ان کمپنیوں کو بھی وہی اختیارات مل گئے ہیں جو بینکس کو حاصل تھے۔ اب یہ کمپنیاں بھی ایم ٹی اوز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ڈالر انجینیئرنگ کر رہی ہیں، جس سے ڈالر ریٹ بڑھ رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایکسچینج کمپنیوں کو پی آر آئی سکیم میں شامل کرنا ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کمپنیوں کو اس سکیم سے نکالا جائے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ سکیم کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، تاکہ نہ بینکس، نہ ایکسچینج کمپنیاں، اور نہ ہی انڈین ایم ٹی اوز اس سے مستفید ہوں۔‘

ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا: ’پی آر آئی ایک عجیب قانون ہے۔ اس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی جب اپنے وطن رقوم بھیجتے ہیں تو بینکوں کو کم از کم 100 ڈالر پر 37 سعودی ریال انعام میں ملتے تھے۔ اگر ہزار ڈالر آتے تھے، تو بینک اسے 10 ٹرانزیکشنز میں تقسیم کر کے 370 ریال حاصل کرتے تھے۔

’سٹیٹ بینک نے اب کم از کم 100 ڈالر کی ٹرانزیکشن کو بڑھا کر 200 ڈالر کر دیا ہے اور انعام کی شرح بھی 20 ریال کر دی ہے۔ بینکوں اور ایم ٹی اوز کے منافع تقریباً 17 ریال فی 100 ڈالر ٹرانزیکشن کم ہو گئے ہیں، اور اب وہ مبینہ طور پر یہ نقصان پورا کرنے کے لیے ڈالر ریٹ میں انجینیئرنگ کر رہے ہیں، جو ڈالر کے مہنگا ہونے کی بڑی وجہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’پی آر آئی سکیم کے تحت حکومت سالانہ تقریباً 200 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ بیرون ملک سے پیسے ایم ٹی اوز کے ذریعے پاکستان بھیجے جاتے ہیں، جن میں سے 90 فیصد انڈین کمپنیاں ہیں۔ یعنی پاکستانیوں کے ٹیکس سے جو سبسڈی دی جا رہی ہے، وہ انڈیا جا رہی ہے۔ پی آر آئی سکیم کو بند ہونا چاہیے۔

’پہلے تقریباً 37 ریال فی 100 ڈالر بیرون ملک چلا جاتا تھا، اب بھی 22 ریال ان کی جیب میں جائیں گے۔ پی آر آئی سکیم سے حکومت اپنا ڈالر انڈین کمپنیوں کو بیچ رہی ہے۔ پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے اور انڈیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔’

ظفر پراچہ نے زور دیا: ’یہ رعایت بیرون ملک سے ترسیلات بھیجنے والے پاکستانیوں کو دی جانی چاہیے، جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہوتا ہے۔ وہاں ترسیلات پر بھیجنے والوں کو فی ڈالر دو ٹکا سبسڈی دی جاتی ہے۔ اگر پاکستان بھی یہ سبسڈی براہ راست پاکستانیوں کو دے، تو ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’حکومت صرف دو تین ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خرید رہی ہے۔ جو ڈالر ریٹ بتایا جا رہا ہے وہ درست نہیں، بلکہ کم بتایا جا رہا ہے تاکہ عوام سے سستا ڈالر خریدا جائے اور پھر وہی ڈالر حکومت کو مہنگا بیچ کر منافع حاصل کیا جائے۔ یہ سب ایکسچینج کمپنیوں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ ان کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو ڈالر کی فارورڈ سیلنگ میں بھی پیسہ بنایا جا رہا ہے۔

’یہ سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اتنے ڈالر کیوں خرید رہی ہے؟ ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالرز تک بڑھ چکے ہیں، آئی ایم ایف کی زرمبادلہ ذخائر کی شرط بھی پوری ہو چکی ہے، اور کسی بڑے قرض کی ادائیگی بھی نہیں کرنی۔ شاید حکومت کو ڈرایا گیا ہے کہ ایم ٹی اوز اور بینکوں کے منافع کم ہونے سے ترسیلات زر میں تین ارب ڈالر تک کمی آ سکتی ہے، اسی لیے حکومت ڈالر خرید رہی ہے، جس سے ریٹ بڑھ رہا ہے۔‘

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’حکومت نے گذشتہ سال ہنڈی حوالہ سے تقریباً آٹھ ارب ڈالرز خریدے، جس کی وجہ سے ڈالر کنٹرول میں رہا۔ اس سال حکومت بمشکل دو سے تین ارب ڈالرز ہی اضافی حاصل کر سکے گی۔

’حکومت جانتی ہے کہ موجودہ سال میں ڈالرز ذخائر کو مینج کرنا مشکل ہو گا، اسی لیے وہ ڈالر خرید رہی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ڈالر ریٹ 320 روپے ہو۔ اس سال کے اختتام تک ڈالر ریٹ 320 تک جا سکتا ہے۔ اسی لیے زیادہ سے زیادہ ڈالرز سٹاک کیے جا رہے ہیں اور ریٹ بڑھ رہا ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ