’میگا‘ (میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ کس کا ہے؟ ظاہر ہے کہ میرا مطلب لفظی معنوں میں نہیں۔ میگا تو ایک خیال ہے، کوئی وجود نہیں۔ یہ کوئی دکان یا کتاب نہیں۔ اینٹیں اور گارا نہیں۔
اگرچہ ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے الفاظ والی سرخ رنگ کی ہر ٹوپی کی فروخت پر مجھے 10 فیصد ملتا تو آج میں یہاں بیٹھ کر یہ مضمون نہ لکھ رہا ہوتا۔
میں نے یہ سوال اس لیے اٹھایا کیوں کہ جب ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے بمبار طیارے بھیجنے کے معاملے پر بےچینی پیدا ہوئی تو صدر نے ٹرمپ لینڈ کے ان ناقدین کو جھاڑ دیا جن کا کہنا تھا کہ یہ عمل میگا اور امریکہ پہلے کے اصولوں کے مطابق درست نہیں۔
ٹرمپ نے کم و بیش یہ کہہ دیا کہ ’میں نے ہی میگا کو ایجاد کیا۔ اس لیے میگا وہی ہے جو میں کہتا ہوں۔‘ یہ حربہ کام کر گیا۔ ان کے مخالفین نے کسی قدر برہمی کا اظہار کیا لیکن جلد ہی خاموش ہو گئے۔ میگا اتحاد اپنے ہیرو کے پیچھے قطار بنا کر کھڑا ہو گیا۔
لیکن جیفری ایپسٹین کا معاملہ مختلف ہے۔ بدنام زمانہ کروڑ پتی اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ایپسٹین عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی دوران حراست چل بسے۔ یہاں ٹرمپ لینڈ کے ناقدین کا شور بڑھ رہا ہے اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ صدر جو کچھ بیچ رہے ہیں، ان کے حمایتی خریدنے کو تیار نہیں۔
دوسرے لفظوں میں ایک ایسے شخص جو چھ سال پہلے مر چکے، جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد صدر ٹرمپ کی اتھارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے۔
یہ بات ستم ظریفی سے خالی نہیں۔ صاف بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ برسوں سے اکیلے ہی سازشی نظریات کی فیکٹری بنے ہوئے تھے۔ سب سے مشہور سازشی نظریہ اوباما کی جائے پیدائش کے بارے میں تھا، جس کے مطابق اوباما امریکہ نہیں، کینیا میں پیدا ہوئے، اس لیے وہ صدر بننے کے اہل نہیں۔
ابتدا میں اوباما انتظامیہ نے اسے مذاق سمجھا، لیکن جب یہ بات ختم نہ ہوئی تو بالآخر انہوں نے ہوائی میں اوباما کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ لیکن سازشی نظریے کے حامیوں نے کہا یہ تو مختصر سرٹیفکیٹ ہے، مکمل نہیں۔ یوں یہ معاملہ چلتا رہا۔
اوباما کی قریبی ٹیم نے اس سے ایک سبق حاصل کیا کہ آپ عقل سے کام لینے والے اور سمجھدار شہریوں کو قائل کر کے سازشی نظریے کا اثر کم کر سکتے ہیں یا لوگوں کی توجہ دوسری جانب مبذول کرا سکتے ہیں، لیکن اسے مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن۔ یہ ایسی شے ہے جیسے کپڑوں کو لگنے والا کیڑا یا (بار بار بڑھنے والی) جاپانی گھاس۔
یہ بات اگر کوئی سمجھتا ہے تو وہ خود ٹرمپ ہیں۔ وہ اب خاصے چڑچڑے ہو چکے ہیں کہ امریکی عوام، خاص طور پر ان کے اپنے حامی، ان کی اٹارنی جنرل پام بونڈی کی یہ بات تسلیم نہیں کر رہے کہ ایپسٹین کے معاملے میں سازشی نظریے میں کوئی جان نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ آگے بڑھیں۔ یہاں دیکھنے کے لیے کچھ نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ یہ سازشی نظریہ اصل میں ٹرمپ لینڈ نے ہی پیدا کیا۔ نائب صدر جے ڈی وینس اور صدر کے بیٹے ڈان جونیئر نے بھی اسے کافی ہوا دی۔
اس نظریے کے مطابق ایپسٹین کے پاس ان کروڑ پتی اور سیاست دانوں کی ایک خفیہ فہرست تھی جن کے لیے انہوں نے اپنے خوفناک جزیرے پر تفریح کا اہتمام کیا۔ جزیرے پر موجود کم سن لڑکیوں کو طاقتور شخصیات کے لیے جنسی عمل پر مجبور کیا گیا۔ ان لوگوں میں مبینہ طور پر بعض نمایاں ڈیموکریٹ بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 میں جب ایپسٹین کو نیویارک کی جیل میں مردہ پایا گیا تو پوسٹ مارٹم میں خودکشی قرار دیے جانے کے باوجود یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ انہیں قتل کیا گیا۔ سازشی نظریے کے مطابق جن بااثر شخصیات کے نام ان کی فہرست میں تھے، انہوں نے انہیں قتل کروایا تاکہ وہ مقدمے میں گواہی دے کر انہیں ملوث نہ کر سکیں۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ خود اٹارنی جنرل پام بونڈی وعدہ کر چکی ہیں کہ وہ ایف بی آئی کی ایپسٹین سے متعلق ’ٹرک بھر کر‘ اہم دستاویزات جاری کریں گی۔ فروری میں انہوں نے فاکس نیوز کے اینکر جان رابرٹس کو بتایا کہ ان کے پاس وہ مبینہ بلیک بک موجود ہے جس میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہنے والے سرکردہ شخصیات کے نام درج ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت یہ (بک) میرے میز پر رکھی ہے۔ یہ دستاویزات جاری کرنے کا حکم صدر ٹرمپ نے دیا۔‘
اس کے برعکس گذشتہ ہفتے محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے دو صفحات کا ایک غیر دستخط شدہ میمو جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ایپسٹین کو 2019 میں جیل میں قتل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا جب وہ مقدمے کی کارروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور نہ ہی انہیں اس بات کا کوئی سراغ ملا کہ ایپسٹین نے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب کرنے پر طاقتور لوگوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
اس سازشی نظریے کو ایف بی آئی کے موجودہ سربراہ کاش پٹیل اور ان کے نائب ڈان بونجینو (دائیں بازو کے سابق پوڈ کاسٹ میزبان) مسلسل فروغ دیتے رہے ہیں اور لاکھوں میگا حامیوں نے اسے مکمل یقین کے ساتھ تسلیم کیا۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جو بالکل واضح طور پر خفیہ طاقتوں کی طرف سے کسی حقیقت کو چھپانے کی کوشش تھی۔ اگر کوئی ایسی کوکشش کی گئی ہو تو۔
اس تمام صورت حال نے صدر اور ان کی اٹارنی جنرل کو تنہا کر دیا ہے۔ ان کے لیے بہاؤ کے خلاف تیرنا مشکل ہو گیا ہے جب وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ایپسٹین کیس میں کچھ نہیں۔ اس معاملے پر بونجینو کے استعفے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔
ایپسٹین کیس کی عدالتی دستاویزات وفاقی عدلیہ کے پاس ہیں، جو معلومات تک رسائی کے قانون سے مستثنیٰ ہے۔ ٹرمپ ان دستاویزات کو جاری کرنے سے گریزاں ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے حامیوں سے غیر معمولی طور پر کٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا عام طور پر کبھی نہیں ہوتا۔
وہ ایپسٹین کی کہانی کو ’بورنگ‘ قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسے صرف ’برے لوگ‘ آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک جھوٹ ہے۔ اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر انہوں نے ایپسٹین کے سازشی نظریے کو ’بکواس‘ کہا اور اس پر یقین رکھنے والوں کو اپنے ’ماضی کے حامی‘ قرار دیا (یہ الفاظ انہوں نے خود بڑے حروف میں لکھے) گویا میگا کے نظریے کے ان منحرف لوگوں کے لیے اس سوچ سے باہر کا کوئی عمل شروع ہونے والا ہو۔
حتیٰ کہ سب سے زیادہ فرمانبردار اور خوشامدی ساتھی بھی اب غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور دانت دکھا رہے ہیں۔
ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن جو بعض اوقات ایسے لگتا ہے جیسے خدا نے انہیں صرف ٹرمپ کو خوش رکھنے کے لیے پیدا کیا ہو، مطالبہ کر رہے ہیں کہ محکمہ انصاف ایپسٹین کی موت سے متعلق اپنے پاس موجود تمام معلومات شائع کرے۔ رپبلکن ارکان کانگریس کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ انتظامیہ کی بات پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔
فاکس ٹی وی کی سابق میزبان میگن کیلی اور دائیں بازو کے ریڈیو میزبان چارلی کرک جو دو نمایاں بااثر شخصیات ہیں۔ نے ایک جلسے کی میزبانی کی، جس میں سات ہزار افراد شریک تھے۔ انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ کیا وہ اس وضاحت پر یقین رکھتے ہیں کہ ’یہاں دیکھنے کے لیے کچھ نہیں‘۔ ہال میں موجود سب کا جواب یکساں تھا کہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ معاملہ چھپایا گیا۔
ٹرمپ کے لیے ایک اور خطرہ بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس ساری صورت حال سے ایک الٹا سازشی نظریہ جنم لے سکتا ہے کہ اصل میں خود صدر کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے معاملے کو دبا رہے ہیں کہ ایپسٹین کے پاس واقعی ایک فہرست موجود تھی اور اس میں ٹرمپ کا نام بھی شامل تھا۔
آخرکار یہی الزام ایلون مسک نے چند ہفتے پہلے ٹرمپ سے شدید اختلاف کے دوران لگایا۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس الزام کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اگرچہ ایپسٹین اور ٹرمپ ایک دوسرے کو جانتے تھے اور ان کی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں وہ ایک ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔
صورت حال بالکل ایسی نہیں کہ جیسے ڈاکٹر فرینکنسٹائن اپنی تخلیق کردہ بلا پر قابو کھو بیٹھا ہو لیکن اگر آپ سازشی نظریات کے سہارے جیتے ہیں، جیسا کہ ٹرمپ نے کیا، تو انہی کے ہاتھوں انجام کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent