وزیرستان میں خودکش حملہ، افغان مشن کے نائب سربراہ ڈی مارش

پاکستانی دفتر خارجہ نے حملے میں چار سکیورٹی اہلکاروں کی موت اور 15 شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد افغان مشن کے نائب سربراہ کو طلب کر کے ڈیمارش کیا ہے۔

31 جولائی، 2023 کو خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں سکیورٹی اہلکار ایک بم دھماکے کے مقام پر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان نے جمعے کو شمالی وزیرستان میں ایک خودکش حملے میں چار سکیورٹی اہلکاروں کی موت اور 15 شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد افغان مشن کے نائب سربراہ کو ڈیمارش کیا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعے کی شب ایک بیان میں بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں واقع سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر خود کش حملے میں چار اہلکار جان سے گئے جبکہ خواتین اور بچوں سمیت 15 شہری شدید زخمی ہوئے ہیں۔
 
آئی ایس پی آر کے مطابق حملہ آوروں نے بویا علاقے میں کیمپ کے سکیورٹی حصار کو توڑنے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر انہوں نے بارودی مواد سے لدی گاڑی کو بیرونی حفاظتی دیوار سے ٹکرا دیا، جس کے نتیجے میں دیوار منہدم ہو گئی اور قریبی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا، جس میں ایک مسجد شامل ہے۔
 
بیان کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے، تاہم فائرنگ کے تبادلے میں چار سکیورٹی اہلکار جان سے گئے۔
 
پاکستان فوج نے اس حملے کو افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اسے افغان طالبان حکومت کے ان دعوؤں کے بالکل برعکس قرار دیا ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ ان کی سرزمین پر ایسے ’دہشت گرد گروہ موجود نہیں‘۔
 
آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ پاکستان ’عبوری افغان حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور خوارج کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال سے روکے کیونکہ پاکستان کے عوام کا تحفظ اور سلامتی اولین ترجیح ہے۔‘
 
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک جاری بیان میں ’حملے کو ناکام بنانے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین‘ پیش کرتے ہوئے جان سے جانے والے چار سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
 
انہوں نے زخمی ہونے والے 15 شہریوں کی جلد صحتیابی کے لیے بھی دعا کی۔
 
ادھر اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے افغان مشن کے نائب سربراہ کو وزارتِ خارجہ طلب  کر کے ڈیمارش کیا ہے۔
 

دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں اس حملے کا گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا۔

بیان کے مطابق افغان نائب سربراہ مشن کو طلب کر کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ’مسلسل فراہم کی جانے والی حمایت اور سہولت کاری پر پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کیا، جس کے باعث یہ گروہ پاکستان-افغان سرحد کے ساتھ ساتھ ملحقہ علاقوں میں پاکستانی فوج اور شہری آبادی کے خلاف دہشت گرد حملے کرنے کے قابل ہو رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں زور دیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کو حاصل سازگار ماحول، افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور پاکستان کے ساتھ کیے گئے ان وعدوں کے برعکس ہے جن کے تحت افغانستان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک، بشمول پاکستان، کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔

بیان میں پاکستان نے مکمل تحقیقات اور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کیے گئے دہشت گرد حملوں میں ملوث عناصر اور سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 
 
بیان کے مطابق افغان طالبان حکومت کو واضح طور پر آگاہ کر دیا گیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع اور اپنے شہریوں کے تحفظ کا پورا حق محفوظ رکھتا ہے اور افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی کے جواب میں ہر ضروری اقدام کرے گا۔
 
پاکستان کا الزام ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ تاہم کابل ان الزامات کو رد کرتا ہے۔
 
دونوں ملکوں کے درمیان اکتوبر میں شدید سرحدی جھڑپوں میں اموات کے بعد تعلقات کشیدہ اور سرحدیں تجارت کے لیے بند ہیں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان