پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی ویسی روایتی جنگ بندی نہیں جیسی دو متحارب ریاستوں کے درمیان جنگ یا تنازع کے بعد نافذ کی جاتی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے یہ بات جمعے کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔
بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ کیا افغانستان کے ساتھ سیز فائر باضابطہ ہے، اور افغانستان نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب دے گا جس کا الزام وہ پاکستان پر لگاتا ہے۔ تو کیا کسی حملے کا امکان ہے؟ آپ نے سکیورٹی بڑھائی؟ آپ اس کے لیے تیار ہیں؟
افغانستان نے رواں ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے خوست میں فضائی حملے کیے جن میں 10 افراد مارے گئے، لیکن پاکستان فوج نے اس کی تردید یہ کہتے ہوئے کی کہ ’ہماری پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہے، افغان عوام کے خلاف نہیں۔‘
اس کے جواب میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 25 نومبر کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان کے اندر عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان–افغانستان جنگ بندی کا مطلب یہ تھا کہ افغان سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پاکستان کے اندر کوئی حملہ نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس جنگ بندی کے بعد بڑے دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جنگ بندی برقرار نہیں رہی، کیونکہ اس کا مقصد ٹی ٹی پی، ایف اے کے اور افغان سرزمین استعمال کرنے والے افغان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا رک جانا تھا۔
’لہٰذا اگر افغان شہری حملے کر رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اسلام آباد اور دیگر مقامات پر کیے۔ تو ہم اس جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہو سکتے، اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، یہ روایتی ریاستی جنگ بندی نہیں ہے، بلکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘