افغانستان پاکستان کو ’مناسب وقت اور مناسب انداز‘ میں کیا جواب دے سکتا ہے؟

دونوں ملکوں میں اگرچہ عارضی امن کا معاہدہ ہے لیکن اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو افغانستان کے ردعمل کی شکل و صورت کیا ہو سکتی ہے؟

نئے بھرتی ہونے والے افغان طالبان کے کیڈٹ دو نومبر، 2025 کو صوبہ پکتیا کے شہر گردیز کے مضافات میں واقع 203 منصوری کور کے فوجی تربیتی مرکز میں اپنی گریجویشن تقریب کے دوران ایک فوجی گاڑی کے اوپر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر سے کشیدگی مسلسل جاری ہے اور رواں ہفتے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مبینہ حملے پر کابل نے ’مناسب وقت اور مناسب انداز‘ میں جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔

دونوں ملکوں میں اگرچہ دوحہ اور ترکی کی ثالثی میں عارضی امن کا معاہدہ ہوا ہے، لیکن اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو افغانستان کے ردعمل کی شکل و صورت کیا ہو سکتی ہے؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کابل کے پاس ممکنہ ردعمل کے آپشن کم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحد پہلے ہی بند ہے اور تجارت رکی ہوئی ہے، ایسے میں وہ یا تو پاکستان کے ساتھ سفارتی روابط کم کر دے گا یا پھر سرحدی چوکیوں پر محدود کارروائیاں کرسکتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تناؤ کی کیفیت ہے۔ 

پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں اور انہیں انڈین سرپرستی حاصل ہے، لیکن کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے ہیں۔

افغانستان نے رواں ہفتے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے خوست میں فضائی حملے کیے جن میں 10 افراد مارے گئے، لیکن پاکستان فوج نے اس کی تردید یہ کہتے ہوئے کی کہ ’ہماری پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہے، افغان عوام کے خلاف نہیں۔‘

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 25 نومبر کو میڈیا سے گفتگو میں کہا ’پاکستان نے افغانستان کے اندر عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔‘ 

تاہم افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہہ چکے ہیں کہ ’افغانستان کے عوام ملک کی سرزمین اور تقدس کے تحفظ کے لیے مناسب وقت پر اپنی تمام تر سہولیات اور صلاحیتیں استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

اس صورت حال میں کابل اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو کس طرح سے آگے بڑھائے گا؟

افغان امور کے ماہر اور سینیئر پاکستانی صحافی طاہر خان سمجھتے ہیں افغانستان کا ردعمل اب اسلام آباد پر منحصر ہے کہ پاکستان کتنا آگے جاتا ہے۔

انہوں نے کہا ’حالیہ فضائی حملے جو ہوئے ہیں اور جس کی پاکستان نے تردید کی ہے، اس کا ردعمل تو افغانستان نے ابھی تک نہیں دیا کیونکہ جب بھی افغان طالبان پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں تو اس کا جواب پاکستان ضرور دیتا ہے۔

پاکستان کے حملوں کے بعد افغانستان میں دباؤ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی ردعمل دیں۔‘ انہوں نے بتایا افغان طالبان کے سفارتی آپشن بھی محدود ہیں۔

’افغان طالبان کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں کہ کسی ملک کی سفارتی سطح پر مدد حاصل کر سکیں۔ افغانستان کی سفارتی سطح پر پوزیشن مخدوش ہے۔

’پاکستان کا موقف تو یہی ہے ان کے خلاف جو لوگ لڑتے ہیں وہ افغانستان میں ہیں اور اس پر دیگر ممالک ایران، روس اور چین کو بھی تشویش ہے اور میں نہیں سمجھتا جب تک طالبان کی حکومت ہو گی تب تک پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی ہو گی۔‘

طاہر خان ے مطابق ’پاکستان کا موقف طالبان حکومت کے لیے واضح ہے کہ وہ یا تو ٹی ٹی پی کو چنیں یا پاکستان کا انتخاب کریں۔‘

پاکستان اور افغانستان کی سرحد صرف خیبر پختونخوا میں 1229 کلومیٹر طویل ہے اور وہاں سے افغانستان میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں۔

ہر 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر چیک پوسٹیں موجود ہیں جبکہ زیادہ تر علاقہ پہاڑی اور دشوار گزار ہے۔ مجموعی طور پر دونوں کی سرحد 25 سو کلومیٹر طویل ہے۔

پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو اس وقت سب سے زیادہ قابل تشویش مقام وادی تیرہ لگتا ہے جس کی دوسری جانب افغانستان کا علاقہ ننگرھار ہے۔

پاکستان فوج کے ترجمان کے مطابق تیرہ اس وقت دہشت گردوں کا نیا گڑھ بن رہا ہے، اس لیے وہاں آپریشن ناگزیر ہے۔

ماہرین کے بقول اس علاقے میں کسی کارروائی کے نتیجے میں افغان طالبان کی آپشن محدود ہوسکتی ہے۔

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں ’کشیدگی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔

’مذاکرات کے دوران جب افغان حکام کے سامنے ثبوت رکھے گئے کہ ٹی ٹی پی کہاں چھپی ہوئی ہے تو انہوں نے اسے تسلیم بھی کیا لیکن وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا ’حالیہ حملوں کے واضح ثبوت موجود ہیں اور یہی افغان حکومت کا ممکنہ ردعمل اور پالیسی ہے کیونکہ وہ یہی کر سکتے ہیں کہ سرحدوں سے غیر ریاستی عناصر کو پاکستان جانے سے نہ روکیں تاکہ پاکستان میں داخلی امن کو تباہ کیا جائے۔‘

دوسری جانب ماہر افغان امور سمیرا خان کے نذدیک ’افغانستان کا ردعمل اب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی روابط کم کر دے اور پاکستان پر سیاسی و عسکری دباؤ بڑھانے کے لیے سرحدی چوکیوں پر کارروائیاں بڑھائے۔‘

موجودہ صورت حال میں شدت پسندوں کی کارروائیاں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ عسکریت پسند پہلے ہی اب بڑے اہداف جیسے کہ کیڈٹ کالج وزیرستان، اسلام آباد کچہری اور ایف سی ہیڈکواٹرز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ 

سمیرا خان کا ماننا تھا کہ ’اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے سرحد کو عسکریت پسندوں کے لیے کھلا چھوڑا جائے گا تاکہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو۔

’ردعمل کے طور پر سفارتی سطح پر انڈیا سے قربتیں بڑھنے کی توقع ہے تاکہ پاکستان کو یہ تاثر ملے کہ افغانستان کو اس کی ضرورت نہیں۔‘

دوسری جانب ان کے خیال میں پاکستان انٹیلی جنس کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کرے گا اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سرحدی کنٹرول سخت کرے گا۔

’اگر حملے جاری رہتے ہیں تو محدود، ٹارگٹڈ سرحد پار حملے بھی جاری رہ سکتے ہیں۔‘

افغان طالبان نے گذشتہ دو دہائیوں میں اپنی عسکری تنظیم سازی اور تربیت میں نمایاں بہتری لائی ہے۔

انہوں نے مختلف جنگی حکمت عملیوں اور تکنیکوں میں مہارت حاصل کی ہے، جو انہیں متوقع طور پر موثر بناتی ہیں۔

لیکن پاکستانی عسکری طاقت ان کے لیے کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ جاری دشمنی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مزید عدم اعتماد اور مخاصمت کو فروغ دے سکتی ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں جہاں نسلی اور قبائلی وابستگیاں ملتی جلتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا