پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ایک بار پھر نازک موڑ پر ہیں۔ گذشتہ دن دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی علاقوں میں شدید فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوا جس کے بعد دونوں جانب سے اموات کی اطلاعات ہیں۔
ان جھڑپوں کا پسِ منظر وہ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے جو پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں کی افغانستان سے موجودگی کے باعث پیدا ہوئی۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس نے ہمیشہ افغان حکومت کے ساتھ تحمل اور مکالمے کا راستہ اپنایا، مگر افغاستان سے مسلسل دراندازی کے بعد اس کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ سرحدی استحکام اور اعتماد کی فضا کے بغیر خطے میں دیرپا امن ممکن نہیں ۔
یہ افسوس ناک تصادم دونوں ممالک کے درمیان موجود عدم اعتماد اور حساس تعلقات کو ایک بار پھر اجاگر کر گیا ہے۔ یہ واقعات کسی ایک دن یا کسی خاص پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل تاریخی تسلسل کی علامت ہیں، جس میں سیاسی ترجیحات، سرحدی تنازعات اور بڑی طاقتوں کی علاقائی مداخلتیں شامل ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کا رشتہ ابتدا ہی سے پیچیدگیوں کا شکار رہا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی۔ یہ علامتی مگر اہم قدم دونوں ممالک کے درمیان اس دیرینہ بداعتمادی کی بنیاد بن گیا جو بعد میں مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ، پشتونستان کا نعرہ، اور سرحدی اختلافات نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ابتدا ہی سے غیر یقینی فضا میں رکھا۔
سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، اپنے وسائل اور معیشت پر غیر معمولی دباؤ برداشت کیا اور افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔ تاہم سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کی جنگ، بیرونی مداخلتوں اور اندرونی تقسیم نے ایک بار پھر باہمی اعتماد کو مجروح کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ نے اس عدم اعتماد کو مزید گہرا کر دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین پر ایک طویل اور خونریز جنگ لڑی، ہزاروں شہریوں اور فوجی اہلکاروں نے جانوں کی قربانی دی، مگر اس کے باوجود افغانستان کے بعض سیاسی اور فکری حلقے ہر بحران کا الزام پاکستان پر ڈالتے رہے۔
حالیہ تصادم اسی پس منظر کی تازہ مثال ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال باعثِ تشویش ہے کہ افغان سرزمین پر موجود بعض گروہ اب بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اسلام آباد نے متعدد بار کابل حکومت کو اس امر سے آگاہ کیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دی جائے، مگر تاحال عملی پیش رفت محدود ہے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت، جو عالمی سطح پر ابھی تک مکمل طور پر تسلیم شدہ نہیں، داخلی معاشی بحران، گورننس کے مسائل اور سیاسی غیر یقینی کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں بعض اوقات بیرونی تعلقات میں سخت رویہ اپنانا اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تاہم یہ پالیسی طویل المدت طور پر خود افغانستان کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر تنہائی بھی بڑھتی ہے۔
علاقائی منظرنامہ اس وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور پاک چین اقتصادی راہداری نے جنوبی اور وسطی ایشیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے امکانات پیدا کیے ہیں۔ اگر مغربی سرحد پر امن و استحکام قائم ہو جائے تو پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارت، توانائی اور ٹرانزٹ کے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت اسے ایک قدرتی تجارتی سنگم بناتی ہے، لیکن اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کابل کو اپنے تعلقات میں تعاون، تسلسل اور اعتماد پر مبنی پالیسی اپنانا ہو گی۔
تجارت اور توانائی کے نئے راستے اسی وقت ممکن ہیں جب خطہ سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔ چین، ایران، ازبکستان، اور روس جیسے ممالک اس خطے میں تجارتی راہداریوں کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی ان تمام امکانات پر سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے۔ کابل اگر اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور علاقائی روابط کے لیے کھولنے کا فیصلہ کرے تو وہ نہ صرف اپنی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے بلکہ خود کو ایک فعال اور ذمہ دار ریاست کے طور پر منوا سکتا ہے۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں گذشتہ برسوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مئی میں انڈیا کے ساتھ ہونے والے فضائی تصادم کے بعد پاکستان نے جس مہارت اور تزویراتی برتری کا مظاہرہ کیا، اس نے نہ صرف ملکی دفاعی اعتماد کو تقویت دی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی واضح کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اپنی سفارت کاری میں ایک نیا توازن پیدا کیا ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری، سعودی عرب کے ساتھ سٹرٹیجک شراکت داری، چین کے ساتھ گہرے تعلقات اور روس کے ساتھ بڑھتے روابط نے پاکستان کو علاقائی سیاست میں ایک متوازن اور اہم کردار دینے میں مدد دی ہے۔
یہ بدلتا ہوا علاقائی توازن کابل کے لیے بھی ایک موقع ہے۔ اگر افغانستان خطے میں خود کو مثبت کردار کے طور پر منوانا چاہتا ہے تو اسے دہشت گردی کے خلاف واضح اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کے ساتھ تعاون نہ صرف امن و استحکام لائے گا بلکہ دونوں ممالک کے لیے تجارتی، توانائی اور اقتصادی امکانات کو بھی بڑھائے گا۔
حالیہ پاکستان افغانستان جھڑپ دونوں ممالک کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ سرحد پار تنازعات کا حل محاذ آرائی میں نہیں بلکہ مکالمے اور باہمی یقین دہانیوں میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ افغانستان اگر خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے تو اسے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے خلاف غیر ریاستی عناصر کا استعمال نہ صرف خطے بلکہ اس کے اپنے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان دراصل ایک محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔ اسی طرح افغانستان کے لیے بھی ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی رشتے ایک ایسے تعلق کی بنیاد فراہم کرتے ہیں جو تصادم سے نہیں بلکہ تعاون سے پروان چڑھ سکتا ہے۔
خطے کا مستقبل دشمنی میں نہیں بلکہ اقتصادی اشتراک میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان اگر اپنے اختلافات کو تاریخ کے بوجھ سے آزاد ہو کر نئے دور کے تقاضوں کے مطابق دیکھیں، تو یہی سرحد جو آج کشیدگی کی علامت ہے، کل رابطے، تجارت اور مشترکہ ترقی کی راہ بن سکتی ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو نہ صرف خطے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز اسلام آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)