افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اتوار کو انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور اگر پاکستان کو ایسا شبہ ہے تو اسلام آباد کو اس کے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی آج کل انڈیا کے سرکاری دورے پر ہیں، جس کے دوران انہوں نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سمیت کئی دوسرے حکام سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔
اسی دورے کے دوران نو اکتوبر کی رات کابل میں بم دھماکوں کے بعد افغان حکام نے اسے ’پاکستان کی غلطی‘ قرار دیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ رات سرحدی جھڑپیں ہوئیں، جن میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو جانی اور انفراسٹرکچر نقصان پہنچانے کے دعوے کیے ہیں۔
افغانستان نے جھڑپوں میں پہل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں پاکستانی افواج کی جانب سے افغان سرحدوں کی خلاف ورزی کے جواب میں ’انتقامی آپریشن‘ قرار دیا۔
پاکستان الزام لگاتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں انڈین سرپرستی شامل ہے۔ تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
اتوار کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے کسی کو خطرہ نہیں ہے اور جو لوگ ایسا کہتے ہیں، انہیں اس کا ثبوت دینا ہو گا۔
’پاکستان دہشت گردی کا الزام اگر افغانستان پر لگاتا ہے تو اس بات کا جواب پاکستان سے پوچھیں کیونکہ ہم تو قائل ہی نہیں ہیں کہ ہمارے ملک سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کہ افغانستان میں مکمل امن ہے اور ملک کا ایک انچ بھی کسی کے قبضے میں نہیں ہے۔
امیر خان متقی نے کہا: ’جو الزام لگاتا ہے وہ ثبوت پیش کرے۔‘
’فغانستان میں مکمل امن ہے‘
افغان وزیر خارجہ نے ملک میں طالبان حکومت کی رٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ادھر (افغان) حکومت مضبوط ہے۔ کوئی بھی افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں گذشتہ چار برسوں سے کسی دہشت گرد کا وجود نہیں ہے۔ رواں برس آٹھ مہینوں کے دوران تو پورے افغانستان میں دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔
بقول امیر خان متقی: ’افغانستان میں دہشت گردی کا واقعہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے امن قائم کیا ہوا ہے۔‘
واہگہ بارڈر
افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان اور انڈیا کے درمیان واہگہ بارڈر کے ہمیشہ کھلا رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے واہگہ بارڈر تجارت کے لیے قریب ترین راستہ ہے۔ ’اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہ سرحد کبھی بند نہ ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پاکستان اور انڈیا پر زور دیا کہ ملکوں کے درمیان سفارتی اور عسکری کو تجارتی تعلقات سے جوڑنا نہیں چاہیے۔
’تجارت سے عام لوگوں کی معاش اور کاروبار منسلک ہوتے ہیں اور یوں سرحدوں کے بند رکھنے سے عوام کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور انڈیا کی خواہش ہے کہ واہگہ بارڈر کو تجارت کے لیے کھولا جائے۔
گذشتہ چار سال کے دوران انڈیا اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کا ذکر کرتے ہوئے امیر خان متقی نے بتایا کہ ’آج فیصلہ ہوا کہ انڈیا کابل میں تکنیکی مشن کو مکمل سفارت خانے میں تبدیل کرے گا۔‘
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ رفتہ رفتہ دونوں تعلقات کو معمول پر لانا دونوں ملکوں کا ہدف ہے۔
افغانستان میں خواتین کے حقوق
افغانستان میں خقوق نسواں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امیر خان متقی نے وضاحت کی کہ افغانستان کی روایات اور قانون کے مطابق تمام طبقات کو ان کے حقوق حاصل ہیں۔
’اس کا ثبوت افغانستان میں امن ہے۔ اگر لوگوں کو حقوق میسر نہ ہوتے تو ملک میں امن ممکن نہیں تھا۔‘
ان کے خیال میں افغان خواتین کو حقوق نہ ملنا پروہیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ’لوگ یہ پروپیگنڈا کر کے غلطی کرتے ہیں۔‘