افغانستان سے جھڑپیں: پاکستان کا 19 افغان پوسٹوں پر قبضے، منوجبہ بٹالین ہیڈکوارٹر تباہ کرنے کا دعویٰ

ریڈیو پاکستان کے مطابق پاکستانی فوج کی بروقت کارروائی سے افغانستان کی طرف متعدد سرحدی چوکیاں تباہ اور درجنوں افغان فوجی اور ’خوارج‘ مارے گئے۔ 

12 اکتوبر 2025 کی اس تصویر میں پاکستانی فوج کو آرٹلری فائر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (سکیورٹی ذرائع بذریعہ ریڈیو پاکستان)

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہفتے کی رات دیر گئے شروع ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں سرحد پار 19 پوسٹوں پر قبضہ اور منوجبہ کیمپ بٹالین ہیڈکوارٹر کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے پاکستان ٹیلی ویژن کو بتایا کہ قبضہ کی جانے والی پوسٹوں سے پاکستان پر حملے کیے گئے تھے۔

پی ٹی وی کی ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’رات گئے سے پاکستانی فورسز بھاری ہتھیاروں کے ساتھ بھرپور مہارت سے افغان پوسٹوں کو کامیابی سے نشانہ بنا رہی ہیں۔ اب تک پاکستان نے افغانستان کی بارڈر پر موجود 19 افغان پوسٹوں، جہاں سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے تھے، پر قبضہ کر لیا ہے۔‘

سکیورٹی ذرائع کے مطابق پوسٹوں پر موجود نتعدد افغان طالبان مارے جا چکے ہیں جبکہ باقی جان بچا کر بھاگ چکے ہیں۔

پی ٹی وی کی ایکس پوسٹ پر جاری کی گئی ویڈیو میں قبضہ ہونے والی افغان پوسٹوں میں لگی آگ اور ان کی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج نے ژوب سیکٹر میں طالبان فورسز کی اہم پوسٹ پر قبضہ کر کے وہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا ہے، جبکہ افغان طالبان کی ایک ہموی بکتر بند گاڑی کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ 

بعض دوسرے سکیورٹی ذرائع نے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو بتایا کہ ’پاکستانی مسلح افواج نے خوارج کے کئی کمانڈ سینٹرز کو بھی تباہ کیا، جن میں ڈیورنڈ میلہ، ترکمانزئی، شہیدان، جندوسر اور کھرچر قلعہ شامل ہیں۔‘

’طالبان کی منوجبہ بٹالین ہیڈ کوارٹر 1 اور 2 کے علاوہ درانی کیمپ اور لیوبند پوسٹیں بھی مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں ہیں۔‘

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ کچھ عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔ نو اکتوبر کی رات افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دھماکے کے بعد افغان حکام نے اسے ’پاکستان کی غلطی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’افغانستان کو چھیڑنا اچھا نہیں۔‘

اسی کشیدگی کے تناظر میں ہفتے کی شب افغان طالبان نے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے کا دعویٰ کیا۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت الله خوارزمي نے ایک بیان میں کہا: ’امارت اسلامیہ کی مسلح افواج نے پاکستانی فوج کی جانب سے بار بار افغانستان کی حدود کی خلاف ورزی اور ان کے ملک کے اندر فضائی حملوں کے جواب میں، ڈیورنڈ لائن کے طول و عرض میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مراکز کے خلاف انتقامی اور کامیاب آپریشن کیے۔‘

ترجمان کے مطابق یہ کارروائی رات گئے ختم ہو گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان فورسز اپنے دفاع کے لیے تیار ہیں اور سخت جواب دیں گی۔

دوسری جانب پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ وہ ’بھرپور قوت‘ سے جواب دے رہے ہیں، جسے انہوں نے افغانستان کی جانب سے ’بلا اشتعال فائرنگ‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کا تبادلہ سرحد کے چھ سے زائد مقامات پر ہوا۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے پاکستان افغان بارڈر پر انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال، اور بارام چاہ (بلوچستان) کے مقامات پر بِلا اشتعال فائرنگ کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ اس فائرنگ کا مقصد ’خوارج کی تشکیلوں‘ (مراد غیرملکی عسکریت پسند) کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔

فریقین نے ایک دوسرے کی چوکیوں پر قبضے اور انہیں تباہ کرنے کے دعوے بھی کیے ہیں۔ طالبان نے کہا کہ انہوں نے تین پاکستانی سرحدی پوسٹیں قبضے میں لے لی ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق پاکستانی فوج کی بروقت کارروائی سے افغانستان کی طرف متعدد سرحدی چوکیاں تباہ اور درجنوں افغان فوجی اور ’خوارج‘ مارے گئے۔ 

سکیورٹی ذرائع نے ریڈیو پاکستان کو بتایا کہ ’طالبان اپنی متعدد پوسٹیں چھوڑ کر علاقے سے فرار ہو گئے ہیں، جب کہ وہاں کئی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔

’اب تک پاکستانی فوج نے 19 افغان پوسٹوں پر قبضہ کر لیا ہے جہاں سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے تھے۔ پاکستانی فوج نے طالبان کے منوجبہ کیمپ بٹالین ہیڈ کوارٹر، جندوسر پوسٹ، ترکمان زئی کیمپ اور کھرچر قلعہ کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا۔‘

پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے شیئر کردہ ویڈیو فوٹیج میں افغانستان کی طرف گن اور آرٹلری فائرنگ دکھائی گئی، جو رات کے آسمان کو روشن کر رہی تھی۔ 

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر ’بلا اشتعال‘ فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان فورسز کی شہری آبادی پر فائرنگ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بہادر فورسز نے فوری اور مؤثر جواب دے کر ثابت کیا ہے کہ کسی بھی اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فورسز چوکس ہیں اور ’افغانستان کو اینٹ کا جواب پتھر‘ سے دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان آگ و خون کا جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کے تانے بانے ہمارے ازلی دشمن سے ملتے ہیں۔

محسن نقوی نے مزید کہا پاکستان کے عوام بہادر مسلح افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں اور افغانستان کو بھی انڈیا کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

پاکستان کی جانب سے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ آیا یہ جھڑپیں ختم ہو گئی ہیں یا نہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 2400 کلومیٹر سے زیادہ (1300 میل) ہے۔ 

اسلام آباد افغان طالبان انتظامیہ پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے عسکریت پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں جو پاکستان پر انڈیا کی حمایت سے حملہ کرتے ہیں۔ نئی دہلی اس الزام کی تردید کرتا ہے، جب کہ طالبان کہتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ 

اس ہفتے ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان نے کابل میں فضائی حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما کو نشانہ بنانے کے لیے کیا تھا، جو ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا وہ زندہ بچ گئے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اس ہفتے انڈیا کے دورے پر ہیں۔ یہ 2021 میں گروپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی اعلیٰ طالبان عہدیدار کا پہلا دورہ انڈیا ہے، جس کے دوران دونوں فریقین نے تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ اس دورے نے پاکستان میں مزید تشویش پیدا کی ہے۔ 

دونوں ملکوں سے تحمل کا مطالبہ

قطر کی وزارت خارجہ نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت، سفارت کاری اور تحمل کو ترجیح دیں اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے اختلافات کو کم کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دینے کے لیے کام کریں۔

قطری وزارت خارجہ نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کے لیے قطر کی حمایت کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

ایرانی اعلیٰ سفارت کار عباس عراقچی نے افغانستان اور پاکستان سے جاری جھڑپوں کے درمیان ’تحمل سے کام لینے‘ کا مطالبہ کیا۔

عراغچی نے سرکاری ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک براہ راست انٹرویو کے دوران کہا، ’ہمارا موقف یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان