حکام کے لیے ’قائم مقام‘ ہٹانے کا حکم: طالبان حکومت مستقل کرنے کا پیش خیمہ؟

اخوندزادہ کے طالبان حکام کے عہدوں سے’قائم مقام‘ ہٹائے جانے کے حکم نے بلاشبہ ان توقعات کو کمزور کیا ہے کہ ان کی حکومت عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے۔

افغان طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد 12 اکتوبر 2021 کو دوحہ میں غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کرتے ہوئے (اے ایف پی)

طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کا گذشتہ ماہ وزرا اور سرکاری حکام کے عہدوں سے’قائم مقام‘ یا ’عبوری‘ لفظ ہٹائے جانے کا حکم  افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔

اس اقدام نے بلا شبہ ان توقعات کو کمزور کیا ہے کہ طالبان کی حکومت عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے۔ عالمی برادری میں بہت سے لوگ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ وقت کے ساتھ دباؤ طالبان کو ایک زیادہ جامع اور زیادہ نمائندگی والی حکومت اپنانے پر مجبور کرے گا۔

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے چند ہفتے بعد ہی گروپ نے ایک عبوری حکومت بنائی جس میں تقریباً مکمل طور پر سینیئر طالبان رہنماؤں کو شامل کیا گیا جس میں ملک کے دیگر سیاسی گروپوں کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔ یہ حکومت تاحال قائم ہے جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک جامع حکومت بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد ازاں اعلان کردہ عبوری کابینہ مکمل طور پر مردوں پر مشتمل، صرف طالبان کی کابینہ تھی جس میں خواتین اور اقلیتوں کے رہنماؤں کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا، یوں وہ اپنی نمائندہ حکومت کے وعدوں پر پورا نہیں اترے۔

افغان طالبان کے بانی ملا عمر نے 80 کی دہائی کے اختتام پر سوویت انخلا کے بعد کئی سال جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد 1996 میں افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

عالمی دباؤ، سیاسی تنہائی اور ملک کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض شمالی اتحاد، جسے ددنیا کے بیشتر ممالک میں افغانستان کی جائز حکومت تسلیم کیا جاتا تھا، کی عسکری مزاحمت کے باوجود ملا عمر نے اقتدار پر اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھی اور تحریک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھی۔ وہ پردے کے پیچھے سے، ایک پراسرار شخصیت کے طور پر مطلق العنان اختیار کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے۔

طالبان کے موجودہ سربراہ اور ملا عمر کے جانشین ہبت اللہ اخوندزادہ نے بھی اصلاحات یا مغربی مطالبات ماننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے پیروکار انہیں ایمان کے واحد نگہبان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ملا عمر کی طرح، اخوندزادہ بھی پردے کے پیچھے سے حکمرانی کرتے ہیں۔

بین الاقوامی امداد اور افغان منجمد مالی اثاثوں کی بحالی کو اس شرط سے جوڑا گیا تھا کہ اگر وہ بدل کر نئے اور جدید سوچ اپنائیں۔ لیکن طالبان نے یا تو ایسا دکھاوا کیا یا پھر طاقت پکڑنے تک خاموشی سے وقت گزارا۔

دونوں امکانات یکساں طور پر ممکن ہیں۔ طالبان نے سخت گیر مؤقف سے لے کر نرم طاقت کے مظاہرے تک سب کچھ آزمایا۔

دوسری جانب امریکہ نے بھی، جو پہلے کہتا تھا کہ وہ دہشت گردوں سے بات نہیں کرتا لیکن پھر انہی ’دہشت گردوں‘ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے تک سب کچھ آزما کر دیکھ لیا لیکن نتیجہ صفر رہا۔

مغربی اتحادیوں نے امداد روک دی جس کا خمیازہ عام افغان عوام نے بھگتا جب کہ طالبان اپیلیں کرتے رہے مگر عوامی مشکلات میں کوئی کمی نہ آئی۔

بار بار کے تمام تر داؤ پیچ کے باوجود، جمود قائم رہا۔ اب کچھ کرنا ضروری ہے یعنی ایک زیادہ سخت پیغام دینا ہوگا۔

اخوندزادہ کم گو انسان ہیں، پردے میں رہتے ہیں اور دور سے حکومت چلاتے ہیں۔ لیکن جب وہ بولتے ہیں تو ان کے الفاظ سخت، سوچے سمجھے، برداشت سے بھرے اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ انہوں نے تمام طالبان حکام کو حکم دیا کہ اپنے عہدوں سے ’قائم مقام‘ کے القاب ہٹا دیں۔ زمین چھوڑنے اور رعایتیں دینے کے بجائے یہ گروپ اپنی پرانے طرزِ حکمرانی کی طرف لوٹ رہا ہے۔

ایک تنظیم کے طور پر طالبان نے دنیا کے ساتھ کھڑے ہونے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی۔ 1990 کی دہائی میں بھی یہ گروپ دنیا کی عدم شناخت کے باوجود واحد حکمرانی کے نظام پر چلتا رہا۔ اب کابل پر قبضے کے چار سال بعد بھی تحریک نے حالات کے بدلنے کے باوجود کوئی بڑا نظریاتی تغیر نہیں دکھایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخوندزادہ، جو زیادہ تر طالبان قیادت کی طرح پشتون ہیں، پشتون روایات اور فقہ حنفی کے پیروکار ہیں۔ طالبان کے اندر اختلاف، مخالفت یا متبادل طریقوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اقتدار میں شراکت کا سوال ہی نہیں۔ انتخابات متوقع نہیں۔ دیگر نسلی گروہوں یا سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی موجود نہیں۔

طالبان کی قیادت بظاہر محفوظ اور جمی ہوئی نظر آتی ہے۔ عوام میں بے اطمینانی ضرور ہے لیکن گروپ کے اقتدار چھوڑنے کا کوئی امکان نہیں۔

اگرچہ طالبان افغانستان کے نسلی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے باہر رکھنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن عالمی برادری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان سے اس بارے میں بات چیت اور مذاکرات کرے۔ تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ دباؤ اور تنہائی نے طالبان کو مزید الگ تھلگ کیا ہے۔ عالمی برادری بھی افغان عوام کی تکالیف میں شریک ہے۔ طالبان نے اپنی حکومت کے ’قائم مقام‘ القاب تو ختم کر دیے ہیں لیکن عالمی برادری نے بھی افغان عوام کی مدد میں ’غیر مستقل‘ رہنے کا رویہ اپنا لیا ہے۔

بشکریہ عرب نیوز 

نائلہ محسود ایک پاکستانی محقق ہیں، جو علاقائی سیاست اور سکیورٹی کے معاملات پر مہارت رکھتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر