افغان طالبان کی چار سالہ حکومت: امن کا دور دورہ، معیشت اور حقوق نسواں پر سوالات

ماہرین و تجزیہ کاروں کے خیال میں افغانستان میں امن تو قائم ہے لیکن قانون کا وجود نہیں، جب کہ سفارتی امور بھی قابل گور ہیں اور خواتین کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔

افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کا ایک پوسٹر 14 اگست 2023 کو کابل میں ایک سڑک پر نظر آ رہا ہے (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

15 اگست کو افغانستان میں رجیم کی تبدیلی کے چار سال مکمل ہونے پر ماہرین و تجزیہ کاروں کے خیال میں جنگ زدہ ملک میں دوسرے کئی ایک مسائل کے باوجود امن پوری طرح قائم ہے۔

پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغان امور آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’طالبان کے چار سالہ دور میں ایک بات جو اہم ہے وہ افغانستان میں امن کا قیام ہے، جو گذشتہ 46 سالوں میں نہیں دیکھا گیا۔‘

ان کے خیال میں ملک میں ایسے دیرپا امن کا قیام صرف افغان طالبان کے رینکس میں موجود ڈسپلن کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔

2021 میں امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدے کے نتیجے میں افغان طالبان نے اسی سال 15 اگست کو سابق صدر اشرف غنی کے اقتدار کے کاتمے پر افغانستان میں حکومت قائم کی۔ 

اس سے قبل طالبان نے 1996 ستمبر میں کابل پر قبضہ کیا تھا، جو بعد ازاں ملا عمر کی قیادت میں افغانستان کے صرف تین صوبوں کے علاوہ سارے ملک تک پھیل گیا۔

2001 میں امریکہ میں رونما ہونے والے 9/11 کے واقعات کے بعد طالبان حکومم ختم ہوئی اور آئندہ 20 سال تک ملک میں جمہوری دور رہا۔ 

افغان طالبان کے سفارتی تعلقات کے متعلق بات کرتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ ’آہستہ آہستہ اب دنیا بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ طالبان رجیم کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان کے اپنے ہمسایہ ممالک میں اب تبدیلیاں آئی ہیں۔ پاکستان چین اور طالبان کے مابین چین میں سہ فریقی ملاقات ہوئی، جس میں طالبان افغانستان حکومت کے سٹیٹس کو اپ گریڈ کیا، جبکہ گذشتہ ماہ روس نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے۔ 

امکان یہی ہے کہ دیگر ممالک بھی جلد تسلیم کریں گے۔‘

جب سوال کیا گیا کہ پاکستان نے اب تک طالبان کو تسلیم کیوں نہیں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی مرکزی وجہ ٹی ٹی پی ہے۔ جب افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے گی تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔‘

افغانستان کی موجودہ اور سابق رجیمز میں کیا فرق ہے؟

آصف درانی نے کہا کہ ’موازنہ کریں تو افغانستان کی گذشتہ رجیم کی نسبت اب افغانستان میں امن ہے۔ پہلے دہشت گردانہ حملے ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

’تاہم اب افغانستان میں غربت پہلے سے بڑھ چکی ہے۔ اقتصادی حوالے سے حالات ابھی مستحکم نہیں ہوئے۔‘

تاہم دفاعی و سفارتی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’رجیم کی تبدیلی سی قبل اور بعد کے افغانستان میں واضح فرق باضابطہ  قانون کی عدم موجودگی ہے۔

’اب وہاں اسلامی نظام کے تحت سزا و جزا کا نظام لاگو کیا گیا ہے۔ قانون میں کوئی اصلاحات نہیں کی جا رہیں۔ طالبان سے پہلے والے افغانستان کا کم از کم کوئی نظام تھا جسے وہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’افغان طالبان کو سمجھنا ہو گا کہ ہمسائیوں کے تخفظات کو رفع کیا جا سکے۔‘  

سینیئر تجزیہ کار اور صحافی سمیرا خان نے کہا کہ ’گذشتہ حکومت جنگی معیشت پر انحصار کرتی تھی۔ ان کا واحد ذریعہ معاش امریکہ سے آنے والی امداد تھا۔ اسی وجہ سے افغانستان میں کرپشن بھی عروج پر تھی۔ 

’طالبان حکومت نے کرپشن اور لا اینڈ آرڈر صورت حال پر کچھ حد تک قابو پایا ہوا ہے، جبکہ مغربی ممالک بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ طالبان افغانستان میں عوامی زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کر چکے ہیں۔‘

طالبان اپنے ملک میں موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف ایکشن نہیں لیتے 

ڈاکٹر قمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’طالبان کے جو چار سال گزرے ہیں ان میں انہوں نے اپنے قریبی ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران کے ساتھ اچھا تعلق رکھنے پر وقت صرف نہیں کیا۔ طالبان کا فوکس صرف معاشی صورتحال کی بہتری پر کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو غیر ریاستی دہشت گرد عناصر مخفوظ پناہ گاہیں لیے ہوئے ہیں ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ 

’اور جن ممالک کو ان دہشت گرد عناصر سے مسائل ہیں وہ جب طالبان حکومت سے مسئلے کو اٹھاتے ہیں تو کوئی ردعمل یا ایکشن سامنے نہیں آتا۔‘

عمر چیمہ کے خیال میں ’چونکہ چین کو غیر ریاستی عناصر سے براہ راست کوئی مسئلہ نہیں اس لیے افغان طالبان بیجنگ کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان طالبان کی اقوام متحدہ میں بھی رسائی نہیں اس لیے دنیا نے ابھی انہیں تسلیم نہیں کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر کے ہی وہ دنیا کے سامنے اپنا امیج بہتر بنا سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چار سالوں میں طالبان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوئی؟

سینئر صحافی سمیرا خان 2021 میں رجیم کی تبدیلی کے وقت افغانستان میں موجود تھیں اور اس تبدیلی کو انہوں نے خود ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ’چار سال بعد طالبان کی اقتدار پر گرفت مضبوط نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ حکومتیں، جن میں پاکستان، روس، جرمنی، امریکہ، چین، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات اور ایران بھی شامل ہیں، چپکے سے کابل میں ڈی فیکٹو حکومت سے تعلقات استوار کر رہی ہیں۔

’جبکہ روس جولائی کے شروع میں طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن چکا ہے۔ روس افغانستان میں امریکی کردار کو ٹیک اوور کر رہا ہے، جسے امریکہ نے چار سال قبل اپنی فوجی انخلا کے ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر ترک کر دیا تھا۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’چین طالبان کی حکومت سے قریبی اقتصادی اور سیاسی تعلقات بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

’بیجنگ نے باضابطہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن صدر شی جن پنگ نے جنوری 2024 میں سفارتی پروٹوکول کے ذریعے طے شدہ مکمل اعزاز کے ساتھ طالبان کے سفیر کے اسناد قبول کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا اور افغان طالبان کی طرف سے پاکستان اور ایران پر ریکگنیشن کے لیےدباؤ بڑھایا چونکہ چین کو اپنے عالمی بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے لیے افغانستان اور اس کے خام مال کی ضرورت ہے۔‘

افغانستان کے متعلق یورپی یونین کی رپورٹ 

یورپی یونین کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، افغانستان میں غربت کے علاوہ تقریباً 23 ملین افراد غیر ملکی امداد پر منحصر ہیں۔ یہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف ہے، صورت ھال کو شدید الارمنگ بناتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ ہر چوتھے افغان شہری کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے اور ہر تیسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے۔

طالبان حکومت میں خواتین کے لیے مشکل حالات

صحافی سمیرا خان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں رجیم کی تبدیلی سے قبل خواتین کے لیے حالات سازگار تھے اور یہاں تک کہ صحافت کے میدان میں بھی عوریں موجود تھیں۔ 

’لیکن طالبان کی حکومت آنے کے بعد خواتین صحافت تو دور کوئی بھی نوکری نہیں کر سکتیں۔ خواتین کے لیے حالات کٹھن اور گھٹن زدہ ہیں، جس کی وجہ سے جس پڑھی لکھی عورت کو موقع مل رہا ہے وہ یورپ امریکہ کا رخ کر رہی ہیں۔‘ 

ہیومن رائٹس واچ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ’طالبان حکام نے 15 اگست 2021 کو افغانستان پر قبضے کے بعد سے عورتوں کے حقوق اور ذرائع ابلاغ پر اپنی پابندیوں میں مزید سختی برتی ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران، طالبان حکام نے عورتوں اور لڑکیوں کو ان کا تعلیم، ملازمت، نقل و حرکت اور اجتماع کا حق استعال نہیں کرنے دیا۔ طالبان نے ذرائع ابلاغ اور معلومات تک رسائی پر وسیع تر پابندیاں عائد کیں اور صحافیوں و ناقدین کی گرفتاریوں کا دائرہ بڑھایا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا