احمد مسعود، طالبان حکومت کے خلاف افغان مزاحمت کے وارث

کسی تیسرے ملک میں ایک نامعلوم مقام پر اپنے ٹھکانے سے ایک غیر معمولی انٹرویو میں، قومی مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ افغانستان کے مستقبل کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

چار اکتوبر 2023 کو فرانس میں این آر ایف کے سربراہ احمد مسعود گفتگو کرتے ہوئے (اے ایف پی/ فیڈریک فلورن)

سی آئی اے نے 1980 کی دہائی میں جب افغانستان سے ہزاروں سٹنگر میزائل اس خوف کے باعث واپس لینے کا فیصلہ کیا کہ کہیں وہ ایران کے پاس نہ چلے جائیں، تو وہ صرف ایک طاقتور جنگجو سردار کے بارے میں جانتے تھے جس پر انہیں بھروسہ تھا کہ وہ مدد کر سکتا ہے۔

امریکی ایجنٹوں نے سوویت یونین اور طالبان کے خلاف افغانستان کی مزاحمت کے مشہور ہیرو احمد شاہ مسعود کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے، وہ گوریلا کمانڈر جس نے نائن الیون سے چند ماہ قبل مغرب کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

شاہ مسعود کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے دو دن قبل اس وقت مار دیا گیا تھا جب بن لادن کے دو خودکش بمبار صحافیوں کا روپ دھار کر پنجشیر میں واقع ان کے گھر میں داخل ہوئے اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

 ان کا 12 سالہ بیٹا احمد مسعود انتہائی بنیاد پرست دہشت گردی کے خلاف افغانستان کی اندرونی مزاحمت کا غیر متنازع وارث بن گیا۔

ان کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے، ’انہوں نے افغانستان کا نجات دہندہ بننے کا انتخاب نہیں کیا بلکہ یہ انہیں پیدائشی طور پر ملا ہے۔‘

دو مسلح نوجوان 34 سالہ مسعود کے ایک تیسرے ملک میں واقع کوارٹرز کی حفاظت پر مامور تھے، جس کو دی انڈپینڈنٹ نے ظاہر نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

ان کے والد کی موت کے حالات مد نظر رکھتے ہوئے، یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ چھوٹے مسعود کے ساتھ یہ نایاب انٹرویو بہت زیادہ رازداری اور سکیورٹی کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد کیا گیا ہے۔

22  سال بعد، طالبان نے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ نے 9/11 کے بعد ملک پر حملہ کرنے والی مغربی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد 15 اگست 2021 کو کابل پر قبضہ کر لیا تھا، اور اگرچہ وادی پنجشیر سے مزید کئی ہفتوں تک شدید ترین مزاحمت کی گئی، لیکن بالآخر مسعود ستمبر میں جلاوطنی میں فرار ہوگئے۔

مشہور اونی پکول (ٹوپی)  اپنی گود میں رکھ کر بیٹھے قومی مزاحمتی محاذ (این آر ایف) کے سربراہ کی شکل و صورت اپنے مرحوم والد سے ملتی ہے۔

انہوں نے فوجی لیڈر کی بجائے کلین شیون، صاف ستھرے لباس میں ملبوس سفارت کار کا حلیہ اختیار کیا ہے، لیکن وہ شمالی افغانستان کے پہاڑی دروں اور گھاٹیوں میں اپنی افواج کی طرف سے اب بھی کی جانے والی گھناؤنی گوریلا کارروائیوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان میں شامل ہیں۔

افغانستان کے کسی بھی علاقے این آر ایف کا کنٹرول ختم ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن مسعود کا کہنا ہے کہ ان کے جنگجو ملک کے 34 میں سے 20 صوبوں، بالخصوص شمالی اور مغربی علاقوں میں طالبان کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔

ایک معاون کا کہنا ہے کہ این آر ایف نے اگست 2021 سے اب تک سینکڑوں طالبان عسکریت پسندوں کو مارا ہے، اور بین الاقوامی برادری کے مفادات یوکرین اور غزہ میں ہونے والی جنگوں جیسے تنازعات کی طرف منتقل ہونے کے باوجود مزاحمت کی جنگ جاری ہے۔

اس ساتھٍی نے کہا، ’ہم طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں ہر ماہ 15 سے 20 فوجی کارروائیوں کا انتظام کر رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک میں ہم ان کے تین سے آٹھ دہشت گرد مارنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘

آپریشنل وجوہات کی بنا پر مسعود نے اس بارے میں زیادہ تفصیل نہیں بتائی کہ ان کی فورسز کہاں اور کب حملہ کریں گی۔

انہوں نے کہا، ’اس وقت میں یقینی طور پر آپ کو یہ نہیں بتاؤں گا کہ ہماری فورسز کیا کر رہی ہیں، یا آنے والے دنوں میں دنیا کیا دیکھے گی۔ لیکن ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ این آر ایف ہمارے افغان عوام کا دفاع کر رہی ہے، انہیں لڑنے کا موقع اور اپنے دفاع کی امید دے رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’ہمارے پاس ایک فوجی مہم کے طور پر، طالبان کے ظلم، بربریت اور دہشت کے خلاف دفاعی مقصد ہے۔ افغانستان کی تباہ کن صورت حال کے پیچھے صرف طالبان کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لہذا طالبان نے ہمارے پاس اپنے دفاع کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔‘

ماہرین مسعود کی اس قابلیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر طالبان کی حکومت کو کمزور کر سکتے ہیں، لیکن اتحادی بین الاقوامی افواج دوبارہ  واپس آنے کا کوئی حقیقت پسندانہ امکان نہ ہونے کی وجہ سے این آر ایف کو اسلامی حکومت کی مخالفت کرنے کے لیے بہترین آپشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

 اس ماہ کے شروع میں مسعود نے ویانا میں ہونے والی ایک کانفرنس کے لیے متعدد اتحادی گروپوں کو اکٹھا کیا تھا جس کا مقصد طالبان کے خلاف متحدہ بلاک تشکیل دینا تھا۔

اگلا قدم بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہوگا، لیکن مسعود کا کہنا ہے کہ وہ اب یہ توقع نہیں کرتے کہ یہ فوجی یا مالی مدد کی شکل میں ملے گی۔ وہ اور دیگر طالبان مخالف رہنما 2021 میں انخلا کے مغرب کے فیصلے پر پریشان ہیں، جسے وہ دھوکہ سمجھتے ہیں۔ فی الحال دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے یہ کافی ہوگا کہ وہ اس مزاحمت کی حمایت کا اظہار کریں اور طالبان حکومت کو وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے سے انکار کریں جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’ہم مغرب سے عسکری یا مالی امداد نہیں چاہتے۔ لیکن جمہوریت کے مفاد میں انہیں افغانستان میں ایک جائز حکومت تشکیل دینے میں مدد کرنی چاہیے۔ دنیا کو (طالبان کے ساتھ) سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت افغانستان پر نظر رکھنے والے ہر شخص کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘

مسعود نے اپنی اور دیگر افغان فورسز کے ارکان کو درپیش صورت حال پر غم و غصے کا اظہار کیا جو فوجیوں، پائلٹوں اور لاجسٹک سپورٹ کے طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کھڑے تھے اور مجبوراً یا تو اپنے ملک سے فرار ہوئے یا طالبان حکام کے ہاتھوں ظلم و ستم اور موت کا سامنا کیا۔

وہ مغربی افواج کے انخلا پر زیادہ الزام نہ لگانے سے متعلق محتاط ہیں، لیکن ان کے بقول یہ خیال سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہ امریکہ نے پیچھے چھوڑے گئے مقامی جنگجوؤں اور معزول حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے طالبان کے ساتھ ’عام معافی‘ کی ثالثی کی۔

’طالبان کی جانب سے این آر ایف کے جنگجوؤں کی ٹارگٹ کلنگ اب بھی جاری ہے۔ طالبان کے خون ریزی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔ یقیناً ہم نے ان کی بہت سے فوجی مارے ہیں اور اب بھی افغانستان کے اندر ان میں سے ہزاروں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

اب تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر طالبان کو افغانستان کا قانونی حکمران تسلیم نہیں کیا۔ لیکن چین اور انڈیا سمیت علاقائی طاقتوں نے سٹریٹجک طور پر اہم اس ملک کے ساتھ رابطے کی لائنیں دوبارہ کھولنا شروع کر دی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کابل کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے زبردستی تختہ الٹنے کی مذمت میں یکجہتی علاقائی طاقتوں کے طور پر عملیت پسندی کو راستہ دینا شروع کر رہی ہے۔

مسعود جیسے جمہوریت نواز رہنما یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا اور بالخصوص مغرب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بارے میں 20 سال تک فعال طور پر لڑنے کے بعد کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ دنیا کے لیے ٹھیک ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’ہاں، افغانستان اب مغرب کی ترجیح نہیں رہا۔ مجھے بھی امید ہے کہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے عوام کے لیے امن آئے گا۔ [لیکن] مجھے امید ہے کہ افغانستان میں بھی امن آئے گا۔‘

ان کا کہنا تھا، ’میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا بائیڈن انتظامیہ کے لیے یہ ٹھیک ہے کہ ایک عسکری گروپ حکومت پر دھاوا بولے اور ڈیموکریٹک انتظامیہ سے اقتدار چھین لے؟ اگر کیپیٹل ہل فسادات ان کے لیے ٹھیک نہیں ہیں تو طالبان کیوں ٹھیک ہیں؟‘

اپنے مستقبل کے حوالے سے مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں رات کو جاگنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اس سوال سے نبرد آزما ہیں کہ اپنے والد کا کام کیسے مکمل کیا جائے، طالبان کو شکست دی جائے اور افغانستان میں امن کیسے لایا جائے۔

انہوں نے کہا، ’کاش میں افغانستان کے لوگوں سے محبت نہ کرتا کیونکہ پھر میں اس جنگ کو چھوڑ اور اس سے دور رہ سکتا تھا۔ لیکن میں ان سے امید سے بڑھ کر محبت کرتا ہوں۔‘

ایران اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے مسعود کا کہنا ہے کہ اگر وہ طالبان کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ سویلین حکومت کی قیادت کرنے کے خواہش مند نہیں۔

 ان کا کہنا ہے، ’اس وقت طالبان کی حکومت میں خواتین جس طرح مشکلات کا شکار ہیں، بہتر ہوگا کہ ایک خاتون ملک کی قیادت کرے۔

’امید ہے کہ میں اقتدار نہیں لوں گا۔ عوام اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ایک زیادہ قابل شخصیت کو انچارج بنایا جائے گا – ترجیحاً ایک عورت –  اور مجھے پرسکون زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔‘

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ایک چھ ماہ کے بچے کے والد ہیں اور مسعود خاندان کی نئی نسل میں پہلی لڑکی ہے۔ انہیں امید ہے کہ ان کے بچپن کا تجربہ ان کے اپنے تجربے جیسا نہیں ہے، جس میں، ایک جنگجو کے وارث کی حیثیت سے، وہ فوجی ہیلی کاپٹروں سے انٹرویو دیتے ہوئے اپنے والد کے ساتھ تھے۔

انہوں نے کہا، ’میں یونیورسٹی میں استاد بننا چاہتا ہوں۔ پروفیسر بننا – یہ میری ذاتی خواہش ہے۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ مزید کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا