افغانستان: طالبان کی قید میں موجود دو صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں ریڈیو نسیم کے ڈائریکٹر سلطان علی اور تمدن ٹی وی کے عبدالرحیم محمدی کو حراست میں لیا گیا ہے۔

13 فروری، 2023 کو صوبہ بدخشاں میں ایک طالبان سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی/ عمر ابرار)

صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے افغانستان میں طالبان کی قید میں موجود دو صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جن کے حوالے سے تنظیم کا کہنا ہے کہ انہیں پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

تاہم افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جن صحافیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، انہیں تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے بعض کو رہا کردیا گیا جبکہ بعض کو بعد میں رہا کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا: ’ان میں بعض صحافیوں کو صحافتی ذمہ داری ادا کرنے پر نہیں بلکہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ کسی کو بھی قانون پر فوقیت حاصل نہیں اور قوانین سب کے لیے ایک ہوں گے۔‘

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے گذشتہ روز جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد آزادی صحافت پر قدغن ہے اور صحافیوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلے میں ریڈیو نسیم کے ڈائریکٹر سلطان علی اور تمدن ٹی وی کے صحافی عبدالرحیم محمدی کو حراست میں لیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق: ’افغان طالبان کی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے عبدالرحیم محمدی کی گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، جو قندھار میں کام کرتے تھے۔ انہیں چار دسمبر کو گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف کے ذرائع کے مطابق: ’عبدالرحیم محمدی کو ایک چیک پوائنٹ پر ضروری دستاویزات نہ ہونے کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہے۔‘

وہ تمدن ٹی وی کے صحافی ہیں، جو زیادہ تر اہل تشیع کے حالات و واقعات پر رپورٹنگ کرتا ہے۔ اسی طرح سلطان علی کو جو صوبہ ڈیکنڈی میں کام کرتے تھے، گذشتہ دنوں ایک سال کی سزا سنائی گئی ہے اور ان پر افغان طالبان کے خلاف ’پروپگنڈا‘ کرنے اور بیرون ملک ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کا الزام تھا۔

تاہم آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق انہیں سزا ایسی حالت میں سنائی گئی ہے کہ انہیں وکیل کا حق نہیں دیا گیا جبکہ عدالتی فیصلہ بند کمرے میں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سلطان علی پر ستمبر سے مقدمہ چل رہا تھا جب ان کو ڈیکنڈی میں افغان انٹیلی جنس ادارے نے ان کے دو ساتھیوں سیف اللہ رضائی اور مجتبیٰ قاسمی اور میڈیا آلات سمیت گرفتار کیا تھا جبکہ ان کے ریڈیو کو سیل کردیا گیا تھا۔

آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق یہ صحافی ریڈیو نسیم پر امریکہ کے میڈیا دارے ’ریڈیو آزادی‘ کا مواد چلا رہے تھے۔ ریڈیو آزادی امریکی ادارے ’ریڈیو فری یورپ‘ کی ایک شاخ ہے اور دسمبر 2022 میں اس ادارے پر افغانستان میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔

ریڈیو نسیم کے ان تینوں صحافیوں کو آر ایس ایف کے مطابق سات اکتوبر کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ان پر الزام یہی تھا کہ انہوں نے ان غیرملکی میڈیا اداروں کی مدد کی ہے، جو افغان طالبان کے خلاف خبریں چلاتے ہیں۔

ان تینوں میں آر ایس ایف کے مطابق رضائی اور قاسمی کو گرفتاری کے 11 دن بعد رہا کردیا گیا تھا لیکن سلطان علی کو ابھی تک نہیں چھوڑا گیا ہے۔

 افغانستان میں آر ایس ایف کے مطابق موجودہ گرفتاریوں کا سلسلہ اگست میں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد بعض میڈیا اداروں کو بند کردیا گیا جبکہ بعض نے خود ادارے بند کر دیے تھے جس میں ریڈیو نسیم میں شامل ہے۔

اسی طرح 19 دسمبر کو آر ایس ایف کے مطابق افغانستان کے معروف ٹی وی چینل طلوع نیوز کے صحافی روح اللہ سنگر کو صوبہ پروان میں حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں دو دن بعد رہا کردیا گیا تھا۔

آر ایس ایف کے مطابق افغانستان دنیا میں میڈیا کی آزادی میں 180 ممالک میں 152 ویں نمبر پر ہے۔ رواں سال افغانستان میں تین صحافی مارے گئے ہیں جبکہ  دو ابھی زیر حراست ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل