پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک میں موجود غیرقانونی طور پر موجود افغان شہریوں کی بے دخلی کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر لارجر بینچ سماعت کرے گا جس کے لیے عدالت نے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
جبکہ درخواست گزاروں نے اس معاملے سے متعلق ایک اور درخواست دائر کرنے کے فیصلہ کیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کے خلاف درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اور وزارت خارجہ نے معاملے سے متعلق اپنے جوابات جمع کروا دیے ہیں۔ درخواست گزاروں نے اپنی درخواستوں میں افغان باشندوں سے متعلق کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ ’حکومت تو صرف ان لوگوں کو واپس بھیج رہی ہے جو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔‘ جس پر وکیل درخواست گزار سمیع الدین نے کہا کہ ’بے دخلی کے لیے قانونی دستاویزات نہ بھی ہوں تب بھی بنیادی حقوق کو مدنظر رکھنا لازم ہے۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ ’غیر ملکیوں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں تب بھی ان کو انسانی حقوق کے تحت ملک میں رہنے دیا جائے؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ ’غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ قانون اور آئین پاکستان کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ’پاکستان کے قانون کے مطابق تو غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پہلے جیل ہونی چاہیے، کیا یہ چاہتے ہیں کہ ان غیر ملکیوں کو پہلے جیل ہو پھر بے دخل کیا جائے؟ حکومت کے مطابق 90 فیصد غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکی رضاکارانہ طور پر واپس جا رہے ہیں۔‘
دوران سماعت وکیل درخواست گزار عمر گیلانی نے کہا کہ ’افغان باشندوں کی بے دخلی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘ جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’کل اگر ایک جاسوس پاکستان میں گھس کر ایک سال تک بیٹھا رہے اور پکڑے جانے پر کہے کہ میرے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں مجھے گرفتار نہ کرو تو آپ کیا کہیں گے؟‘
وکیل نے کہا کہ کلبھوشن یادو کا کیس ہو چکا اور غیر ملکیوں سے متعلق پاکستان بین القوامی قوانین کا رکن ملک ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ ’یہ کیس آئینی تشریح کا ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد لارجر بینچ کو سننا چاہیے۔ درخواست گزاروں نے نگران حکومت اور اپیکس کمیٹی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا حکومت بھی یہی سمجھتی ہے کہ یہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے واپس کمیٹی کو جانا چاہیے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ اس کیس کو لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ جس پر درخواست گزار وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ افغان شہریوں کی واپسی ہو رہی ہے تو کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
ایک اور درخواست دائر ہوگی؟
بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے آرٹیکل 224 کے تحت نگران حکومت کے اختیارات پر سوال اٹھایا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئین کی تشریح کے معاملات لارجر بینچ میں جانے چاہیے۔
کیس کی مزید سماعت سردیوں کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔
درخواست گزار فرحت اللہ بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درخواست گزاروں نے جلد سماعت کے لیے ایک اور درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا عدالت نے ’اس پکڑ دھکڑ کو روکنے کے لیے فی الحال عبوری ریلیف نہیں دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرحت اللہ بابر نے وزیر داخلہ کے ’افغان باشندوں کا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث‘ ہونے سے متعلق بیان پر کہا کہ ’حملوں میں کسی بھی پاکستانی یا افغان باشندے کے ملوث پائے جانے پر قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ یبغیر ثبوت کے یہ کہنا کہ سارے خود کش حملوں میں افغان ملوث ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’40 سال تک انہیں یہ خیال نہیں آیا، یہ افغان افراد کو مہاجر اور اپنے آپ کو انصار کہتے رہے اور آپ کے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات بدل گئے تو یک دم آپ نے انہیں نکالنا شروع کر دیا۔ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا ایک سیاسی مسئلہ لگ رہا ہے اور حکومت افغانستان پر سیاسی دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔‘
کتنے افغان افراد اپنے ملک واپس جا چکے ہیں؟
پاکستان سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئیں تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز پاکستان سے جانے والے افغان شہریوں میں 536 مرد، 412 خواتین اور 1075 بچے افغانستان جا چکے ہیں۔
گذشتہ روز تک پاکستان چھوڑنے والے غیر قانونی افغان باشندوں کی کل تعداد چار لاکھ 26 ہزار 865 ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو 24 نومبر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اپنے وطن بھیجنے کا سلسلہ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔