پاکستان میں حملے سے تعلق نہیں لیکن تحقیقات کو تیار ہیں: افغان طالبان

یہ ردعمل منگل کو پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کی جانب سے افغان عبوری حکومت کے اسلام آباد میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے حملے پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تحقیقات میں پاکستان سے تعاون کا عندیہ دیا ہے (اے ایف پی)‘

افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے پاکستان میں منگل کو ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد کی جانب سے اٹھائے گئے کسی بھی مسئلے کی تحقیقات کریں گے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ 'اگر وہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر وہ ہمارے ساتھ تفصیلات شیئر کرتے ہیں تو ہم تحقیقات کریں گے۔‘

یہ ردعمل منگل کو پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کی جانب سے افغان عبوری حکومت کے اسلام آباد میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے حملے پر ’شدید احتجاج‘ ریکارڈ کرانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

پاکستانی فوج نے منگل کو اپنے 23 فوجیوں کی تدفین کر دی ہے جب چھ رکنی خودکش سکواڈ نے دھماکہ خیز مواد سے لدے ٹرک کو ایک فوجی کیمپ پر چڑھا دیا تھا۔

امریکہ نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں سوگواروں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

فائرنگ اور بم حملے، جس کی ذمہ داری ایک عسکریت پسند گروپ نے ایک ایسے وقت قبول کی تھی جب سیاسی مبصرین پہلے ہی شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کے پیش نظر 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔

ایک بیان میں، ایک پاکستانی طالبان گروپ، تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) نے، جو حال ہی میں ابھرا ہے اور جس نے حالیہ مہینوں میں متعدد بڑے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، کہا ہے کہ اس کے عسکریت پسندوں نے یہ حملہ پاکستانی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے کیا ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق حملے کی ذمہ داری ’تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ افغان ناظم الامور کو کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت کو فوری طور پر پاکستان کے مطالبات پہنچائے جائیں۔

بیان کے مطابق پاکستان نے افغان عبوری حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے ہیں:

افغان عبوری حکومت حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان عبوری حکومت اعلیٰ حکومتی سطح پر اس حملے کی مذمت کرے۔

تمام دہشت گرد گروہوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر قابل تصدیق کارروائیاں کرے۔

حملے کے مرتکب افراد اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔

اس سے قبل پاکستانی فوج نے حملے کے حوالے سے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 فوجی جان سے چلے گئے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو مختلف کارروائیوں میں کل 27 ’دہشت گرد‘ مارے گئے۔

 بیان میں کہا گیا کہ 11 اور 12 دسمبر کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں دیکھیں گئیں، جن میں سے ایک حملہ 12 دسمبر کی صبح چھ ’دہشت گردوں‘ نے درابن میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا