افغانوں کے دل و دماغ جیتنے کا ہدف ہی غلط ہے: انوار الحق کاکڑ

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے انٹرویو میں افغان شہریوں کو واپس بھیجنے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’افغانوں کے دل و دماغ جیتنے کا ہدف ہی غلط ہے۔ ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں۔‘

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے غیرقانونی طور پر ملک میں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنے کے معاملے پر کہا ہے کہ ’ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں‘۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’افغانوں کے دل و دماغ جیتنے کا ہدف ہی غلط ہے۔ ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں۔‘

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’یہ آپ کو کس نے ہدف دے دیا ہے کہ پاکستان ان (افغانوں) کے دل و دماغ جیتنا چاہتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ ہدف ہی غلط ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے سب سے پہلے پاکستانیوں کے دل و دماغ جیتنے ہیں۔ ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں۔‘

انوار الحق کاکڑ نے اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو غلط عادات پچھلی چار دہائیوں میں پڑ گئی تھیں، انہیں تبدیل کرنے میں وقت بھی لگے گا، تکلیف بھی ہوگی، چیلنج بھی ہوگا۔‘

’ہم صرف ایک (سفری) دستاویز کی بات کر رہے ہیں۔ جو لوگ کوئی دستاویزات نہیں رکھتے ان کو کہہ رہے ہیں کہ وہ واپس جائیں اور ویزا لے کر جب آنا چاہیں دوبارہ آئیں۔ ان پر ہم کوئی مستقل پابندی نہیں لگا رہے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ویزوں کے نظام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ’چاہے دو لاکھ ہوں یا 60 ہزار درخواستیں انہیں مربوط نظام کے تحت سہولت دی جانی چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘

انخلا کو مرحلہ وار کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’یہ حکومت کا اپنا صوابدیدی اختیار تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرنے کے لیے اس کو ایک دم کرنے کی ضرورت تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ بھی بتا دوں کہ ایک ڈیڑھ سال سے مختلف مواقعوں پر ریاستی اداروں کی جانب سے، ماضی کی حکومت کی جانب سے بھی، افغان ہم منصبوں کو جو اس وقت حکومت میں ہیں، کو بتایا جا رہا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا کیا مسائل ہیں۔ ہمارے لیے ایک حد آجائے گی، جس سے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہمارے لیے مشکل ہو رہا ہے، ہم اسے مزید برداشت نہیں کرسکتے۔‘

انٹرویو کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاس امریکی اسلحے کی موجودگی سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’یہ اسلحہ جدید ہے، ان کے پاس نائٹ وژن گاگلز، تھرمل وغیرہ ہیں اور یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو ایک ریاست سے دوسری ریاست کو ملتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو سوا لاکھ، ڈیڑھ لاکھ اور کاغذوں میں تین لاکھ افغان فورس تھی جو 78 گھنٹوں میں غائب ہو گئی، وہ اسلحہ کہاں گیا؟ کیا وہ بھی طالبان نے ان سے چھینا ہے؟ یا سی 130 کے ذریعے واپس امریکہ بھیج دیا؟ سوال تو بن رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کوئی الزام نہیں لگا رہا، اس کے شواہد پورے خطے میں موجود ہیں۔ یہاں سے لے کر مشرق وسطیٰ تک یہ اسلحہ فروخت ہوا ہے۔‘

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کا امکان (پاسیبیلیٹی) نہیں ہے کہ انہوں نے سارے گیجٹس بلیک مارکیٹ میں بیچے ہوں، 99 عشاریہ 99 فیصد امکان (پرابیبیلیٹی) ہے اور یہ ہوا ہے۔‘

تاہم نگران وزیراعظم نے اسلحہ مشرق وسطیٰ تک فروخت ہونے سے متعلق اپنے بیان کی تشریح تو نہیں کی، البتہ ماضی میں وہ یہ کہے چکے ہیں کہ جب جلدی میں امریکی فورسز نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا اور افغان فورسز نے پسپائی اختیار کی تو وہ تمام اسلحہ جو پڑوسی ملک میں موجود تھا اس سے کچھ غیر ریاستی عناصر یا عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں بھی چلا گیا تھا جو کئی دوسری ملکوں تک بھی پہنچ گیا۔

افغانستان میں طالبان حکومت آئی تو خیال تھا کہ مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی؟ ایس کیوں نہیں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ افغان طالبان سے اس وقت کوئی باضابطہ گفت و شنید نہیں ہو رہی۔ ’ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔ ہم اسے اس معاشرے اور ریاست کا دشمن سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے مقابلہ کرنا ہی ہماری بقا ہے، اور ہم اس ریاست کی بقا کے لیے آخری حد تک لڑیں گے۔‘

نگران وزیراعظم نے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان کا افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے میں کوئی کردار تھا۔ انہوں نے امریکی سیگار رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں انہوں نے اربوں ڈالرز خرچ کرکے اپنی ناکامی کی وجوہات کا ذکر کیا، جس میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔  

غزہ

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران پاکستان کی طرف سے جاری بیانات اور کچھ امداد بجھوانے کی حد تک کوشش کی لیکن کیا کچھ مزید کیا جاسکتا تھا؟ اس بارے میں پاکستان کے نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ بہت کچھ کیا جاسکتا تھا لیکن پاکستان اب بھی فوری فائر بندی اور انسانی راہداری کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ بہتر کیا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور مغربی دنیا او آئی سی اور دیگر ممالک کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جاسکتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ کوپ اجلاس کے دوران بھی اردن کے شاہ، امریکی سینیٹر کیری، محمد بن زاید اور کویت کے ولی عہد کے ساتھ اس پر تفصیلی بات کی۔

تیل کی رسد کی بندش یا اسلامی فوج کی تجاویز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بہت سارے موضوعات ہیں جن پر سنجیدگی سے بات ہوتی ہے لیکن ان پر عوامی سطح پر کتنا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے، اس پر مشاورت رہتی ہے۔ ’لوگ بہت سی باتوں کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں لیکن اس قسم کی سنجیدہ گفتگو پردے میں رہے تو بہتر ہے۔‘

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر اسرائیلی جارحیت جاری رہی تو یہ ہمسائے علاقوں جیسے کہ لبنان، شام اور اردن کے بعد پورے خلیج اور دنیا کو گرفت میں لے سکتی ہے۔ ’پھر اللہ جانے یہ کہاں تک جا کر رکے گی۔‘

سات اکتوبر سے قبل پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر ملک میں چلنے والی افواہوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اندر کسی بھی سطح پر ایسی کوئی بات کبھی زیر غور نہیں تھی۔  

کوپ 2023

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں عالمی ماحولیات پر کانفرنس کوپ 2023 میں شرکت کے بعد لوٹے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی فنڈ ایلوکیٹ ہونا ہیں۔

اپنی کوپ 2023 کی گروپ تصویر پر تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رہنماؤں کو ان کی حکومت میں وقت گزارنے کے اعتبار سے کھڑا کیا گیا تھا۔ ’وہاں رشی سونک بھی کھڑے تھے، وہ کسی کو نہیں نظر آئے۔ میں نظر آ گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا