روس کے طالبان حکومت تسلیم کرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟

ایک محقق کے مطابق ماسکو کا یہ فیصلہ افغان طالبان کے لیے ایک سیاسی پیش رفت ہے۔

افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی چار جولائی، 2025 کو کابل میں روسی سفیر دیمتری ژیرنوف سے ملاقات کر رہے ہیں (افغان وزارت خارجہ ایکس اکاؤنٹ)

روس نے تین جولائی کو افغانستان میں قائم افغان طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ماسکو سرکاری سطح پر افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔

یہ فیصلہ جمعے کو افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کابل میں روسی سفیر دیمتری زرناؤ کے ساتھ ملاقات میں سامنے آیا تھا جب روسی سفیر نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ 

افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ روسی سفیر نے امیر خان متقی کو ماسکو کی جانب سے افغان طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے بارے میں بتایا۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’یہ دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کے لیے ایک اہم قدم اور دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔‘

اس سے پہلے قطر، پاکستان، چین اور متحدہ عرب امارات نے بھی کابل میں اپنے سفیروں کو تعینات کیا ہے۔

تاہم سرکاری سطح پر ان ممالک نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ 

روس کا یہ فیصلہ کتنا اہم؟

پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے پروفیسر اور جنوبی ایشیا کے سکیورٹی اور جیو پولیٹیکل معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر عرفان اشرف کہتے ہیں ماسکو کا یہ فیصلہ اس لیے حیران کن ہے کہ افغان طالبان نے ابھی تک دوحہ معاہدے پر من و عن عمل نہیں کیا۔

عرفان اشرف کے مطابق افغان طالبان کی حکومت عبوری ہے اور وہاں پر جمہوری حکومت ابھی تک قائم نہیں ہوئی اور نہ اس بات کی نفی کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔

’روس، وسطی ایشیائی ممالک اور پاکستان الزام لگاتے ہیں کہ افغانستان کی زمین ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔‘

عرفان اشرف کا کہنا تھا ’افغانستان بظاہر مختلف ممالک کے لیے ایک کاریڈور کی حیثیت رکھتا ہے اور جیو پالیٹکس اور افغانستان کے عوام کے ساتھ ان ممالک کا کوئی سروکار نہیں کیونکہ افغانستان میں اب بھی انسانی حقوق کی پامالی اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ ممالک افغانستان کو ریاست نہیں بلکہ معاشی فائدے کے لیے ایک راستہ سمجھتے ہیں اور اسے تجارت کے لیے استعمال کرنے کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں، لیکن یہ ایک جمہوری ریاست نہیں اور نہ وہاں ریاستی ساخت موجود ہے۔‘

خطے کے سکیورٹی کے لیے یہ فیصلہ کتنا اہم؟

عبدالسید سویڈن میں مقیم محقق ہیں اور پاکستان و افغانستان کی شدت پسند تنظیموں اور سکیورٹی معاملات پر مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ماسکو کا طالبان کو افغانستان کی رسمی حکومت تسلیم کرنے کا اعلان طالبان کے لیے ایک سیاسی پیش رفت ہے۔‘

عبدالسید کے مطابق یہ یقیناً طالبان کے افغانستان پر حاکمیت کے دعوؤں اور افغان سرزمین سے بیرون ممالک کے لیے خطرہ نہ بننے کے بیانات کو تقویت دیتا ہے۔ 

’2024 میں ماسکو میں دہشت گرد حملوں اور ان میں داعش خراسان کی ایک شاخ کے ملوث ہونے کی رپورٹس کے باوجود ماسکو کا فیصلہ تصدیق کرتا ہے کہ روس طالبان کے سکیورٹی اقدامات سے مطمئن ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ روس کے اعلان پر ایک خیرمقدمی بیان میں چین کا طالبان کے سکیورٹی اقدامات کی حمایت کا اعتراف طالبان کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ 

’افغانستان میں امن کا قیام وسطی اور جنوبی ایشیائی خطے میں تجارت کے لیے افغانستان کی اہم گزر گاہ ہونے کے ناطے ناگزیر ہے اور طالبان حکومت کو بھی اپنے استحکام کے لیے تجارتی تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا