ایران سے وطن پہنچنے والے 7 لاکھ افغانوں کو کن مسائل کا سامنا؟

عالمی ادارے آئی او ایم کے ترجمان کے مطابق جنوری سے اب تک چھ لاکھ 90 ہزار سے زائد افغان ایران چھوڑ چکے ہیں۔

افغان پناہ گزین 28 جون 2025 کو افغانستان اور ایران کے درمیان اسلام قلعہ بارڈر کراسنگ کے زیرو پوائنٹ پر پہنچنے کے بعد ایران سے اپنی ملک بدری کے بعد سامان کے ساتھ آرام کر رہے ہیں (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

ہجار شادیمانی کا خاندان افغانستان میں داخل ہونے کے بعد گرمی اور گرد و غبار میں گھنٹوں انتظار کرتا رہا، ان کے سوٹ کیسوں کا ترتیب سے رکھا ہوا ڈھیر ہی ایران میں گزرے ہوئے ایک عرصے کی آخری نشانی تھا، جہاں سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔

19 سالہ ہجار اور ان کے تین بہن بھائی ان ہزاروں افغانوں میں شامل ہیں جو حالیہ دنوں میں اسلام قلعہ سرحدی مقام سے گزرے ہیں، جن میں اکثریت کو اقوام متحدہ اور طالبان حکام کے مطابق زبردستی نکالا گیا ہے۔

اگرچہ ہجار ایران میں پیدا ہوئی تھیں جب ان کے والدین 40 سال قبل جنگ کے باعث وہاں پناہ گزین ہوئے، مگر وہ کہتی ہیں کہ ایران نے ’ہمیں کبھی قبول نہیں کیا۔‘ جب پولیس شیراز میں موجود ان کے گھر پہنچی اور ان سے ملک چھوڑنے کو کہا تو ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
لیکن افغانستان بھی ان کے لیے اجنبی ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارے پاس یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘

ایرانی یونیورسٹیاں انہیں داخلہ نہیں دے رہیں اور طالبان حکومت جس نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے، دونوں کے درمیان ان کی تعلیم غیر معینہ مدت کے لیے رک چکی ہے۔

’مجھے پڑھائی سے بہت محبت ہے... میں آگے بڑھنا چاہتی تھی مگر افغانستان میں شاید یہ ممکن نہیں۔‘

ہرات صوبے کی اسلام قلعہ سرحد پر یہ چیک پوائنٹ عام طور پر سمگلنگ سے لے کر جبری واپسی تک کے معاملات سب دیکھتا، کیونکہ نوجوان مرد روزگار کی تلاش میں ایران کا رخ کرتے ہیں۔

مگر جب سے تہران نے غیر قانونی افغان باشندوں کو چھ جولائی تک ایران چھوڑنے کا حکم دیا ہے، واپسی کرنے والوں—خاص طور پر خاندانوں—کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے پناہ گزین ( آئی او ایم) کے مطابق صرف جون میں ہی دو لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد واپس آئے۔

آئی او ایم کے ترجمان آوند عزیز آغا نے اے ایف پی کو بتایا: ’جنوری سے اب تک چھ لاکھ 90 ہزار سے زائد افغان ایران چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے 70 فیصد کو زبردستی واپس بھیجا گیا۔‘

اے ایف پی سے بات کرنے والے درجن سے زائد واپس آنے والوں میں سے کسی نے بھی ایران-اسرائیل تنازعے کے باعث فرار ہونے کی بات نہیں کی، حالانکہ اس تنازع نے دباؤ ضرور بڑھایا ہو گا۔ تاہم گرفتاریوں نے ان کی واپسی میں کردار ادا کیا۔

محدود امکانات

یاد اللہ علی زادہ جب آئی او ایم کے مرکز پر لوگوں کو اتارنے والی متعدد بسوں میں سے ایک سے اترے تو ان کے پاس صرف بدن پر کپڑے اور ایک ٹوٹا ہوا فون تھا۔

37 سالہ یاد اللہ نے بتایا کہ وہ دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتے ہوئے گرفتار ہوئے، اور حراستی مرکز میں رکھا گیا، جس کے بعد افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔

اپنے خاندان اور سامان کے بغیر مجبوراً واپسی پر، وہ سرحد پر ایک گتے پر سوئے اور پُرعزم ہیں کہ وہ تب تک وہیں رہیں گے جب تک ان کا خاندان اس کے پاس نہیں آ جاتا۔

انہوں نے کہا: ’میرے تین بچے وہاں رہ گئے ہیں، وہ سب بیمار ہیں اور نہیں جانتے کہ یہاں کیسے آئیں۔‘

انہیں امید ہے کہ وہ اپنے آبائی صوبے دایکندی میں روزگار حاصل کر لیں گے، مگر ایک ایسے ملک میں جہاں غربت اور بے روزگاری اپنی جڑیں گہری کر چکی ہیں، ان کے لیے یہ ایک کٹھن سفر ہو گا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن اُوناما نے خبردار کیا ہے کہ واپس آنے والے، جن میں سے اکثر ’کسی قسم کے وسائل، سہولیات تک رسائی، یا روزگار کے امکانات کے بغیر‘ ہیں، ملک میں جاری بحران کو مزید غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔

استقبالیہ مرکز کے اردگرد خیموں میں طویل قطاریں لگی تھیں جہاں واپس آنے والے اقوام متحدہ، این جی اوز اور حکومتی خدمات حاصل کر رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیز ہوائیں خواتین کے ایرانی انداز کے حجاب اور نوجوان مردوں کے جدید لباس کو لہرا رہی تھیں، جو طالبان کے 2021 میں برسر اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں عام ہو چکے شلوار قمیض سے مختلف نظر آتے تھے۔

نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے ہفتے کو اس جگہ کا معائنہ کیا، اپنے مسلح محافظوں کے ہمراہ ہجوم میں چلتے ہوئے انہوں نے وعدہ کیا کہ ’کسی افغان شہری کو ایران میں اپنے حقوق سے محروم نہیں ہونے دیا جائے گا‘ اور ضبط یا چھوڑ دیے گئے اثاثے واپس کیے جائیں گے۔

طالبان حکام مسلسل ایران اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ساتھ ’باعزت‘ سلوک کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، جہاں پاکستان بھی لاکھوں افغانوں کو ملک بدر کر چکا ہے۔

’ہمارے پاس کچھ نہیں‘

اب تک 10 لاکھ سے زائد افغان اس سال ایران اور پاکستان سے واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ یہ تعداد مزید بڑھنے کی توقع ہے، حالانکہ غیر ملکی امداد میں کمی اور طالبان حکومت مالی مشکلات کا شکار ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔

آئی او ایم نے کہا ہے کہ وہ صرف ایک قلیل تعداد کو خدمات فراہم کر سکتا ہے جبکہ ایران کی ڈیڈ لائن سے 40 لاکھ افغان متاثر ہو سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ  افراد آئی او ایم کے ہرات شہر میں قائم مرکز سے گزرتے ہیں، جہاں انہیں گرم کھانا، ایک رات کی رہائش اور سفر کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔

مگر اس صاف ستھرے اور سایہ دار کمپاؤنڈ میں بھی بہارہ رشیدی فکر مند تھیں کہ افغانستان میں ان اور ان کی آٹھ بہنوں کا کیا بنے گا۔ وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد روزی کمانے کے لیے ایران سمگل ہو کر گئی تھیں۔

19 سالہ بہارہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارے خاندان میں کوئی مرد نہیں جو یہاں کام کر سکے، اور نہ ہی ہمارے پاس گھر ہے نہ پیسے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا