افغان پناہ گزینوں سے متعلق پاکستان، ایران کی پالیسی کیوں بدلی؟

کئی دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے والے ایران اور پاکستان کی جانب سے گذشتہ کچھ عرصے سے پالیسیوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ان حکومتوں کو یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ پناہ گزیوں کے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی تحریر

افغانستان ڈی پورٹ ہونے والے افغان پناہ گزین 22 اپریل 2025 کو چمن میں پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب ایک ہولڈنگ سینٹر کے باہر اپنے سامان کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں (عبدالباسط/ اے ایف پی)

’2023 میں بال بچوں سمیت پاکستان سے نکلنا میری زندگی کا سیاہ دن تھا کیونکہ پشاور میں ہم نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔‘

2011 میں افغانستان سے نقل مکانی کرکے پشاور میں مقیم ہونے والے ظہیر خان نے یہاں پر کنسٹرکشن کے شعبے میں بطور مزدور کام کا آغاز کیا، تاہم ان کے پاس دستاویزات نہیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ حکومتی ہدایات پر انہیں واپس افغانستان جانا پڑا۔

چھ بچوں کے والد ظہیر نے بتایا: ’پاکستانی حکومت نے جلد بازی میں فیصلہ کر کے بغیر دستاویزات رکھنے والے پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا۔ 

’ابتدا میں پولیس کی جانب سے پکڑ دھکڑ شروع کی گئی اور ایک دن آیا کہ ہم گھر کے چند بستر اٹھا کر واپس براستہ طورخم افغانستان آگئے۔‘

ظہیر ابتدا میں افغانستان میں ایک خیمے میں مقیم تھے لیکن اب ایک کچا سا گھر بنا کر اس میں رہائش پذیر ہیں، تاہم ان کے مطابق: ’یہاں دوبارہ زندگی شروع کرنا اور کام اور کمائی کے لیے ترتیب بنانے میں وقت لگے گا۔‘

یہ کہانی صرف ظہیر کی نہیں ہے۔ ان جیسے لاکھوں افغانوں کو حالیہ سالوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک ایران سے بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان اور ایران دنیا میں دو ایسے ملک ہیں، جہاں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی ہے اور ان میں سب سے زیادہ تعداد افغان باشندوں کی ہے۔ 

تاہم کئی دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے والے ایران اور پاکستان کی جانب سے گذشتہ کچھ عرصے سے پالیسیوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے، جس کی وجہ مبصرین کے مطابق دونوں ممالک پر پناہ گزینوں کی معاشی بوجھ اور امن و امان کی صورت حال ہیں۔ 

ایران اور پاکستان نے حالیہ برسوں میں خصوصی طور پر غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔

پالیسی میں تبدیلی کیوں آئی؟

ڈاکٹر سید عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروفیسر ہیں اور افغان امور اور سکیورٹی معاملات کے ماہر ہیں۔ وہ اس حوالے سے مختلف تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابتدا میں پاکستان اور ایران کی جانب سے پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے کی وجہ یہ تھی کہ دونوں ایران اور پاکستان نہیں چاہتے تھے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت قائم ہو۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول عرفان اشرف: ’یہ ایک مذہبی رجحان تھا اور دونوں ممالک اسی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کو اُس وقت خوشی سے قبول کر رہے تھے کہ ایران میں خمینی کی حکومت قائم ہوگئی اور یہاں کچھ عرصے بعد ضیا الحق آئے تھے جو اسلامائزیشن کے حامی تھے۔‘

دوسری وجہ عرفان اشرف کے مطابق: ’سویت یونین کے دور سے پناہ گزینوں کے لیے کیمپ، خیراتی ادارے اور مغرب کی جانب سے ایک اخلاقی سپورٹ بھی حاصل کی گئی اور پناہ گزین، پولیٹیکل اکانومی آف آئیڈیالوجی کا ایک اہم عنصر بن گئے۔‘

انہوں نے بتایا: ’پاکستان سمیت ایران میں بھی یہی صورت حال تھی لیکن ایران میں کراس بارڈر جہاد کا عنصر اتنا نہیں تھا اور انہوں نے پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود کر رکھا تھا جبکہ پاکستان میں اسے جہاد کے نام سے استعمال کیا گیا۔‘

عرفان اشرف کے مطابق: ’ایران نے 2001 کے بعد پالیسی میں تبدیلی لائی اور ابتدا میں کوشش کی کہ انقلابِ ایران کا نظریہ افغانستان تک پھیلا سکے لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے، تو پناہ گزینوں کی پالیسی تبدیل کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اب جو پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے تو اس کی بنیادی وجہ معاشی صورت حال ہے۔ اب پناہ گزینوں کے لیے وہ امداد یا خیراتی اداروں کی جانب سے مدد نہیں آ رہی، جو پہلے تھی، تو اسی وجہ سے اب پناہ گزینوں کے لیے پالیسیاں سخت کی گئی ہیں۔‘

پاکستان میں افغان پناہ گزین 

70 کی دہائی میں افغان پناہ گزینوں کا ملک سے انخلا شروع ہوا اور ایک بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا جہاں وہ ابتدائی دنوں میں کیمپوں میں آباد ہوئے۔

یو این ایچ سی آر کے جون 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں 15 لاکھ تک باقاعدہ رجسٹرڈ اور تقریباً آٹھ لاکھ کے عارضی افغان سٹیزن کارڈ رکھتے ہیں۔

ابتدا میں پاکستان کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی یو این ایچ سی آر کے مطابق بہترین میزبانی کی گئی اور ان کو تعلیم اور صحت کی رسائی دی گئی تاہم کاروبار اپنے نام سے رجسٹرڈ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

افغان طالبان کے پہلے دورِ حکومت کے بعد بھی افغان پناہ گزینوں کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری رہا جبکہ 2001 کے بعد نیٹو افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد بھی پناہ گزین پاکستان آرہے تھے۔ 

یو این ایچ سی آر کے مطابق 2023 میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو نادرا کی جانب سے 13 لاکھ سمارٹ پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) جاری کیے گئے جن کی مدت پہلے جون 2023 اور پھر جون 2025 تک بڑھائی گئی۔ 

سمارٹ پی او آر کارڈ کے حامل افغانوں کو تعلیم، صحت، مقبائل سم کارڈ رجسٹریشن اور بینکنگ جیسی سہولتوں تک رسائی ممکن تھی۔  

یو این ایچ سی آر اور مختلف غیر سرکاری اداروں کی معاونت سے ملک بھر میں افغان پناہ گزینوں کے لیے تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تعلی ادارے بھی قائم کیے گئے۔ 

اسی طرح سرکاری سکولوں میں بھی افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ ابتدا میں یو این ایچ سی آر کے مطابق افغان پناہ گزین بچوں کی تعلیم کے لیے کیمپوں میں سکول قائم کیے گئے تھے۔ 

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 15 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں میں پانچ لاکھ سکول جانے کے عمر کے بچے ہیں، جن میں 20 فیصد سرکاری سکولوں جبکہ بعض نجی اور یو این ایچ سی ار کی مدد سے چلنے والے اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ 

آرمی پبلک سکول حملہ اور پالیسی میں تبدیلی

2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول حملے کے بعد پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان نامی ایک منصوبہ بنایا گیا جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات شامل تھے۔ 

پاکستانی حکام کے مطابق تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کئی شدت پسند کارروائیوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور آرمی پبلک سکول حملہ بھی انہی میں شامل تھا۔  

نیشنل ایکشن پلان میں بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کو 2015 تک رجسٹرڈ کرنے کی تجویز شامل تھی لیکن غیر سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالے جانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 تک تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجا گیا جبکہ افغان پناہ گزینوں کے پاس موجود تقریباً ایک لاکھ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بھی بلاک کیے گئے۔ 

دسمبر 2017 کے بعد افغان پناہ گزین کی ملک بدری کا سلسلہ تھم گیا تھا، تاہم 2023 میں حکومت پاکستان نے بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کے انخلا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور آٹھ لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کے مطابق پی او آر کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ 30 جون 2025 کے بعد شروع ہو گا۔

محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2023 سے 16 جون 2025 تک پانچ لاکھ 58 ہزار سے زائد افغان پناہ گزین افغانستان جا چکے ہیں، جن میں بغیر دستاویزات اور افغان سیٹیزن کارڈ کے حامل پناہ گزین بھی شامل ہیں، جنہیں ملک بدر کیا گیا۔

ایران میں افغان پناہ گزینوں کی حالت زار

پناہ گزینوں کے عالمی ادارے یو این ایچ سی آر کے 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق ایران میں سات لاکھ 50 ہزار رجسٹرڈ افغان پناہ گزین جبکہ 30 لاکھ سے زیادہ بغیر دستاویزات کے مقیم ہیں۔  

بعض ایرانی اداروں کے مطابق ایران میں مجموعی طور پر 45 لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین موجود ہیں، جن میں تقریباً 10 لاکھ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ایران منتقل ہوئے تھے۔ 

امریکہ کے نیشنل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی مقالے کے مطابق افغانستان سے ایران کی جانب پناہ گزینوں کا پہلا انخلا ’افغان جہاد‘ کے دوران شروع ہوا تھا جس میں لاکھوں افغان پناہ گزین ایران منتقل ہوئے۔ 

اسی دوران تحقیقی مقالے کے مطابق ایران میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ اور ’انقلاب ایران‘ کے بعد افغان پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ 

مقالے کے مطابق اس کی بڑی وجہ نئی ایرانی حکومت کا مسلمانوں کو باور کروانا تھا تہران کی سوچ زیادہ مسلمان نواز ہے اور اس کی پالیسیاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف ہیں۔ اسی دوران افغان پناہ گزینوں کو ’بلیو کارڈ‘ دے کر ان کو ایرانی شہریوں جیسے حقوق بھی دیے گئے۔ 

ایران میں 1979 سے 1988 تک افغان پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر تقریباً 26 لاکھ تک پہنچ گئی اور اسی دوران (1988 میں) ایران اور عراق جنگ کا خاتمہ بھی ہوا۔  

سویت یونین کے خلاف جنگ بھی افغانستان میں ختم ہوئی تھی اور 1992 میں کابل کی کمیونسٹ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا جبکہ اسی دوران ایران میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد 42 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ 

افغان پناہ گزین پالیسی میں تبدیلی اور سخت قوانین 

نیشنل مائیگریشن پالیسی کے تحقیقی مقالے کے مطابق ایران میں اُس وقت افغان پناہ گزینوں کو بے پناہ حقوق حاصل تھے جبکہ افغان طلبہ کو یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت بھی تھی۔ 

تاہم اس کے بعد مقالے کے مطابق ایرانی حکومت کو اندازہ ہوا کہ مزید افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے ایران کے ذرائع پر بوجھ بڑھ رہا ہے تو ایرانی حکومت نے بلیو کارڈ کا اجرا بند کردیا۔ 

اسی وجہ سے ایران نے 1993 میں تقرباً 14 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجا اور باقی تقریباً 26 لاکھ کو باقاعدہ پناہ گزینوں کے طور رجسٹر کیا۔ 

اس کے بعد افغان طالبان کے پہلے دور حکومت میں 1996 کے بعد بھی افغان پناہ گزین ایران جانے کی کوشش کرتے رہے تھے لیکن ان کو سخت قوانین کے تحت ایران داخلے کی اجازت نہیں ملتی تھی اور صرف عارضی پناہ گزین کا سٹیٹس دیتے تھے۔ 

مقالے کے مطابق، ’اسی دوران 2001 تک ایران نے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے بھی منصوبہ بندی کی تھی اور تب تک پناہ گزینوں کی تعداد کم ہو کر 20 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔‘  

عمائش کارڈ 

پناہ گزینوں کے لیے پالیسیاں سخت ہوتی گئیں اور ایران حکومت کی جانب سے عارضی پناہ گزینوں کے لیے 2003 میں عمائش کارڈ کے نام سے ایک کارڈ جاری کیا گیا۔

اس کارڈ کی وجہ ایران میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد مزید کم ہو کر تقریباً 10 لاکھ رہ گئی۔ 

افغان طالبان کی 2021 میں افغانستان میں عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد 10 لاکھ تک افغان باشندے پڑوسی ملک میں داخل ہوئےم جنہیں عارضی داخلے کی اجازت دی گئی۔ تحقیقی مقالے کے مطابق ایران میں افغان پناہ گزینوں کو شروع میں مفت علاج معالجے، تعلیم اور دوسری کئی سہولتیں میسر تھیں جنہیں وقت کے ساتھ ختم کیا گیا۔ حتیٰ کہ 2007 کے بعد محدود افغانوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں۔

ڈینش ریفیوجی کونسل کے مطابق بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کا ایران سے نکالے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

عالمی تحقیقی و مشاورتی ادارے ’اپسوس‘ نے ایک حالیہ سروے کے حوالے سے بتایا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ 67 فیصد لوگ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ پناہ کے خواہش مند لوگوں کو ضروری مدد کی فراہمی ہونی چاہیے، جس میں امریکہ سر فہرست ہے۔ 

اسی رپورٹ کے مطابق اس نقطہ نظر نے، کہ پناہ گزین خطرات سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ معاشی فوائد کے لیے ملک چھوڑتے ہیں، پناہ گزینوں کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں اور اسی وجہ سے سروے کے مطابق 40 فیصد لوگ پناہ گزینوں کے لیے سرحدیں بند رکھنے کے حامی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا