افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی: امیر متقی

افغان وزیر خارجہ نے کہا: ’جو بھی افغان اس ہدایت کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف اسلامی امارت کارروائی کر سکتی ہے۔‘

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی 12 اکتوبر 2025 کو نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران (ارون سنکر / اے ایف پی)

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو کہا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور جو کوئی بھی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

 کابل میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے علما کی جانب سے ایک روز قبل متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک پانچ نکاتی قرارداد کی توثیق کی۔

بدھ کو افغانستان کے 34 صوبوں سے جمع ہونے والے سینکڑوں علمائے نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں موجودہ نظام کی حمایت، علاقائی سالمیت کے دفاع، افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے، افغانوں کی بیرونِ ملک عسکری سرگرمیوں میں شمولیت کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا گیا تھا۔

امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ علما کے فتوے کی بنیاد پر افغان قیادت اپنی سرزمین سے کسی کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دیتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول وزیر خارجہ: ’اسلامی امارت کی قیادت کسی کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے گی، لہٰذا جو بھی افغان اس ہدایت کی خلاف ورزی کرے گا، علما کے مطابق، اس کے خلاف اسلامی امارت کارروائی کر سکتی ہے۔‘

اگرچہ امیر خان متقی نے کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم عام خیال یہی ہے کہ یہاں مراد پڑوسی ملک پاکستان ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین رواں برس اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تناؤ کی کیفیت ہے۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں لیکن کابل اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے دوحہ اور اس کے بعد استبول میں مذاکرات کے بعد اگرچہ دوحہ اور ترکی کی ثالثی سے امن پر عارضی طور پر اتفاق ہوا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے دوطرفہ تجارت رکی ہوئی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران افغان علما کی قرارداد پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ’ہم افغان علما کے بیان کا جائزہ لینے کے لیے اسے دیکھیں گے لیکن اس کے باوجود ہم افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں چاہیں گے۔‘

امیر خان متقی نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان پہلے سے زیادہ متحد اور ہم آہنگ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ علما کے فتوے کی بنیاد پر موجودہ نظام کا تحفظ صرف سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام شہریوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔

افغان وزیر خارجہ کے مطابق علما نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں جہاد فرض ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’نظام کا تحفظ صرف سکیورٹی فورسز، وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری نہیں، بلکہ اس نظام کا دفاع کرنا ہر فرد کا فریضہ ہے۔ یہ علما کا اجتماعی فتویٰ ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی قریب یا دور افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے یا اس نظام پر حملہ کرے تو عوام پر جہاد فرض ہو جاتا ہے اور ہر فرد اس کا دفاع کرے گا۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ علما کی قرارداد کی بنیاد پر اسلامی ممالک کو باہمی اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

امیر خان متقی نے کہا: ’پہلے کی طرح علما نے ایک بار پھر نصیحت کی ہے کہ مسلمانوں کو باہمی اتحاد اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی روش برقرار رکھنی چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا