استنبول مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان کا بیان مسترد

پاکستان نے افغان طالبان کے ایک ترجمان سے منسوب بیان مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’استنبول مذاکرات کے دوران افغانستان ان افراد کو ملک بدر کرنے پر تیار تھا جنہیں اسلام آباد اپنی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد 29 جون، 2024 کو کابل میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان نے ہفتے کو افغان طالبان کے ایک ترجمان سے منسوب بیان مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’استنبول مذاکرات کے دوران افغانستان ان افراد کو ملک بدر کرنے پر تیار تھا جنہیں اسلام آباد اپنی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔‘

ایکس پر افغان خبر رساں ادارے آریانہ نیوز نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’استنبول مذاکرات کے دوران افغانستان ان افراد کو ملک بدر کرنے پر تیار تھا جنہیں اسلام آباد اپنی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔‘

اس پر پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے کل ایکس پر ردعمل دیا کہ ’پاکستان استنبول مذاکرات سے متعلق افغان ترجمان سے منسوب بیانات میں حقائق کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو مسترد کرتا ہے۔

’پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان میں موجود وہ دہشت گرد جو پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، ان پر قابو پایا جائے یا انہیں گرفتار کیا جائے جبکہ افغان فریق کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں‘

دونوں ملکوں کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی خوں ریز سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں امن مذاکرات ہوئے اور 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔

بعد ازاں 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔

پاکستان نے 29 اکتوبر کو مذاکرات کے دوسرے دور کی ناکامی کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی۔ 

پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی نے 30 اکتوبر کو ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ میزبان ترکی کی درخواست پر اسلام آباد نے افغانستان سے استنبول میں دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز افغان ترجمان کے بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام انڈین پراکسیز سے واقف ہیں۔

ایکس پر اپنی پوسٹ میں خواجہ آصف کا کہنا تھا ’افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سکیورٹی پالیسیوں پر تمام پاکستانیوں بشمول ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اور خیبر پختونخوا کے لوگ، افغان طالبان رجیم کی طرف سے انڈیا کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کے ارادے یا طرز عمل کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رکھتے۔

انہوں نے مزید کہا ’یہ غیر نمائندہ افغان طالبان رجیم ہے جو اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے اور وہ افغان نسلوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر کی ذمہ دار ہے، جب کہ عوام کے بنیادی حقوق اظہار رائے، تعلیم اور نمائندگی کے بنیادی حقوق کو بھی سلب کر رہی ہے۔‘

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’چار سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی افغان طالبان رجیم بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی اور اب بیان بازی کے ذریعے اور بیرونی عناصر کے لیے پراکسی کے طور پر کام کر کے اپنی ہم آہنگی، استحکام اور حکمرانی کی صلاحیت کی کمی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

’اس کے برعکس، پاکستان کی پالیسی اپنے شہریوں کو سرحد پار دہشت گردی اور خوارج کے گمراہ کن نظریے سے بچانے کے لیے متحد، غیر متزلزل اور قومی مفاد کے ساتھ ساتھ علاقائی امن و استحکام کے حصول کے لیے بھی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان