پاکستان، افغانستان استنبول مذاکرات تعطل کا شکار؟

پاکستانی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے افغان وفد پر واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

دونوں ممالک کی وزرات خارجہ نے بات چیت کے بارے میں آغاز کے بعد سے کوئی باظابطہ اپ ڈیٹ شیئر نہیں کیا ہے (گرافک اینواتو)

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں دو روز سے سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات بظاہر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔

افغان امور کے سینیئر صحافی طاہر خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ دو دن کی ملاقاتوں کے باوجود کسی بھی فریق نے ریکارڈ پر بات نہیں کی ہے۔ ’صورت حال بالکل واضح نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر دو دن میں ہونے والی طویل ملاقاتوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ کچھ معاملات پیچیدہ ہوں۔‘

دونوں ممالک کی وزرات خارجہ نے بات چیت کے بارے میں آغاز کے بعد سے کوئی باظابطہ اپ ڈیٹ شیئر نہیں کیا ہے۔

اتوار کو پاکستانی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے افغان وفد پر واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے اور اس ضمن میں پاکستان کے بنیادی مطالبات پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔

پاکستان بظاہر افغان طالبان سے وجہ تنازع کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ایسی کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے جو تصدیق شدہ ہو۔

ادھر افغان نیوز چینل طلوع نیوز کے مطابق 15 گھنٹے کے مذاکرات کے بعد گذشتہ روز افغانستان کے وفد نے پاکستانی مذاکرات کاروں کو اپنی تجاویز کا مسودہ بھی پیش کیا۔ اس مسودے میں افغان حکومت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کی فضائی حدود اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور پاکستان، افغان حزب اختلاف کے گروپوں کو افغانستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریز کرے۔

ان مذاکرات کے اب تک کے نتائج کے حوالے سے کسی بھی فریق نے کوئی باضابطہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ دونوں ممالک میڈیا کے ساتھ ’ذرائع‘ کے حوالے سے بیانات شیئر کر رہے ہیں۔

پاکستانی وزارت دفاع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی وفد نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ سرحد پار اور افغانستان کے اندر سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان حکومت کو ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کرنے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکیورٹی ذرائع نے مزید بتایا کہ طالبان نے غیر منطقی اور زمینی حقائق کے منافی دلائل پیش کیے جن سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کسی اور کے اشارے پر یا کسی متبادل ایجنڈے پر گامزن ہیں افغانستان، پاکستان اور خطے کے امن و استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویّے سے مشروط ہے۔

پاکستانی حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات نہایت واضح، شواہد پر مبنی اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے مؤثر ہیں لیکن افغان طالبان کے وفد کی ہٹ دھرمی، غیر سنجیدگی اور عدم تعاون کا رویہ اب مذاکراتی عمل کے دیگر شرکا، بالخصوص میزبان ملک پر بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔

حکام کے مطابق میزبان ملک کے ثالثین افغان طالبان وفد کو حقائق سمجھانے، فراہم کردہ شواہد تسلیم کروانے اور سنجیدہ تعاون پر آمادہ کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں تاکہ مذاکرات کو مثبت اور نتیجہ خیز سمت میں آگے بڑھایا جا سکے۔

میزبان ترکی نے ابھی تک واضح نہیں کیا ہے کہ یہ مذاکرات کب تک چلیں گے۔

حالیہ کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی راستوں کی بندش کی وجہ سے تجارت بھی معطل ہے۔

یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب تحریک طالبان پاکستان کے بظاہر حملے جاری ہیں۔ پاکستان فوج نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ضلع کرم اور ضلع شمالی وزیرستان میں افغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والے چار خودکش حملہ آوروں سمیت 25 عسکریت پسندوں کو مار دیا جب کہ آپریشن کے دوران پانچ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے۔

پاکستانی حکام کے مطابق ایسے دراندازی کے واقعات عبوری افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں۔ پاکستان بارہا عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر چکا ہےکہ وہ اپنی سرحدی نگرانی کو مؤثر بنائے،افغانستان دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، افغانستان اپنی سرزمین کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا