برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے افغان اہلکاروں کو طالبان کے انتقام کا سامنا

دی انڈپینڈنٹ کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2023 سے اب تک ملک میں سابق افغان فورسز کے 100 سے زائد اہلکار مارے جا چکے ہیں، جن میں سے ایک کو ان کے بچوں کے سامنے گولی مار کر قتل کیا گیا۔

طالبان سکیورٹی اہلکاروں کا ایک قافلہ 15 اگست 2025 کو کابل کی ایک سڑک پر گزرتے ہوئے افغانستان پر اپنے کنٹرول کی چوتھی سالگرہ کا جشن منا رہا ہے  (وکیل کوہسار / اے ایف پی)

دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ افغان سکیورٹی اہلکار جو برطانوی اور امریکی فوج کے ساتھ مل کر لڑے تھے، اب بھی طالبان کے ہاتھوں تعاقب، تشدد اور قتل کا ہدف بن رہے ہیں، جب کہ برطانیہ خطرے میں گھرے ان افغان شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔

ایک ہولناک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ 2023 کے بعد سے ملک میں ایک سو سے زیادہ سابق افغان فوجی مارے جا چکے ہیں، جب کہ دیگر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اس سنگین خطرے کو ظاہر کرتا ہے جس کا سامنا ان اہلکاروں کو ہے جنہیں 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد اتحادی افواج نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار ایک بار پھر اس مطالبے کو تقویت دیتے ہیں کہ برطانیہ ان ہزاروں مستحق افغان شہریوں سے کیا گیا وعدہ پورا کرے، جو اب بھی پناہ کے منتظر ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے آبادکاری میں تاخیر نے طالبان کو گذشتہ چار سال میں ’انتقام لینے‘ کا موقع فراہم کیا۔

مارے جانے والوں میں علی گل حیدری بھی شامل ہیں، جو افغان سپیشل فورسز کے سابق اہلکار تھے اور امریکی فوج کے ساتھ قریبی طور پر کام کرتے تھے۔ انہیں 2024 کے آغاز میں ان کی بیوی اور بچوں کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ وہ اس وقت نشانہ بنے جب انہیں ایک پڑوسی ملک سے افغانستان واپس بھیج دیا گیا، جہاں وہ پناہ کی تلاش میں گئے تھے۔

طالبان نے دیگر لوگوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ اپنی جان کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سابق کمانڈو نجم الدین نے برطانیہ کی مالی معاونت سے قائم دو خصوصی یونٹوں میں سے ایک میں خدمات انجام دی تھیں، جنہیں ’ٹرپلز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چھ ماہ پہلے انہیں برطانیہ منتقل ہونے کی منظوری مل چکی تھی۔

مگر محفوظ مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی، انہیں ان گھر کے دروازے کے قریب گرفتار کر کے جیل لے جایا گیا، جہاں انہیں اتنی بری طرح مارا پیٹا گیا کہ انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ تقریباً ایک ماہ بعد بالآخر انہیں طالبان کی قید سے رہا کر دیا گیا، مگر وہ اب بھی افغانستان ہی میں موجود ہیں۔

طالبان نے اقتدار سنبھالتے ہی سابق سرکاری اہلکاروں اور افغان سکیورٹی فورسز کے سابق ارکان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے فوراً بعد انتقامی قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جون 2023 تک، افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یواین اے ایم اے) نے 200 سے زیادہ غیر قانونی اموات کا ریکارڈ جمع کیا، جن میں زیادہ تر وہ واقعات شامل تھے، جن میں طالبان کے سکیورٹی اہلکاروں نے لوگوں کو حراست میں لینے کے بعد قتل کر دیا۔

اس سال جون میں طالبان کے وزیراعظم نے عام معافی کے وعدے کو ایک بار پھر دہرایا، بیرون ملک مقیم افغانوں کو یہ یقین دہانی کراتے ہوئے کہ اگر وہ وطن واپس آئیں گے تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

مگر نیوز روم لائٹ ہاؤس رپورٹس کی جانب سے کی گئی ایک تفصیلی تحقیق، جس میں ’دی انڈپینڈنٹ‘ اور افغان میڈیا ادارے ’ہشت صبح‘ (8 اے ایم میڈیا) اور ’اطلاعات روز‘ بھی شریک تھے، نے 2023 سے وسط 2025 تک افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کے کم از کم 110 سابق اہلکاروں کے قتل کی تصدیق کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم و ستم اب بھی جاری ہے۔

کچھ اموات کو ’نامعلوم‘ مسلح افراد سے منسوب کیا گیا یا لاشیں پراسرار طور پر لاپتہ ہونے کے بعد برآمد ہوئیں، مگر دیگر واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق اے این ڈی ایس ایف اہلکار دوران حراست یا تشدد کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔

وزارت دفاع (ایم او ڈی) کے اس تباہ کن ڈیٹا لیک سے متعلق عدالتی کارروائی کے دوران، جس نے برطانوی افواج کی مدد کرنے والے ہزاروں افغانوں کو ممکنہ خطرے میں ڈال دیا تھا، حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ ایک ’بنیادی حقیقت‘ ہے کہ بدلے کے طور پر کیے جانے والے حملے اس پیمانے پر نہیں ہو رہے جس سے ظاہر ہو کہ اس ڈیٹا لیک کا غلط استعمال کیا گیا۔

تاہم بعد میں وزارت دفاع کی جانب سے کروائے گئے (پال) رِمر جائزے، جس کا مقصد اس افشا سے متاثرہ افراد کو درپیش خطرات کا جائزہ لینا تھا، میں اعتراف کیا گیا کہ طالبان کے پاس پہلے ہی وہ معلومات موجود تھیں جنہیں استعمال کر کے وہ سابق سکیورٹی اہلکاروں کا سراغ لگا کر انہیں قتل کر سکتے تھے۔

اس خطرے کو سمجھنے کے باوجود، حکومت نے جولائی میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے افغانستان سے برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کھولے گئے دو آبادکاری پروگرام بند کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ خدشات بڑھ گئے کہ بہت سے لوگوں کو خطرے کا سامنا رہے گا۔

اکتوبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق، وزارت دفاع کے مرکزی آبادکاری پروگرام افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کے تحت تقریباً 4200 درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ، جو برطانیہ آنے کے اہل ہیں، اب بھی منتقلی کے منتظر ہیں۔

لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان اور افغان خواتین و لڑکیوں کے لیے قائم آل پارٹی پارلیمانی گروپ کی سربراہ وینڈی چیمبرلین نے ان نتائج کو ’انتہائی لرزہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے وزرا سے مطالبہ کیا کہ وہ نئے درخواست گزاروں کے لیے برطانیہ میں آبادکاری پروگرام بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

میجر جنرل چارلی ہربرٹ نے، جنہوں نے ’ٹرپلز‘ کے ساتھ کام کیا تھا، اسے ’قابل مذمت‘ قرار دیا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے اہلیت اور ویزے کے اجرا میں تاخیر نے ’طالبان کو 2021 سے ان افغانوں سے انتقام لینے کا موقع فراہم کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’2001 سے 2021 کے درمیان ہمارے ساتھ تعاون کرنے والے مستحق افغانوں کی منتقلی کی کہانی دراصل ناقص پالیسی فیصلوں، پورے نہ ہونے والے وعدوں اور یکے بعد دیگر بننے والی حکومتوں کی غیر مؤثر کارکردگی کی طویل داستان ہے۔‘

وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا کہ محکمہ ان افغان شہریوں سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کر رہا ہے جو محفوظ راستوں کے تحت برطانیہ آنے کے اہل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ منتقلی سے پہلے سخت سکیورٹی اور داخلے کی جانچ کے تقاضے وقت لیتے ہیں اور حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ آبادکاری کے یہ راستے ہمیشہ کے لیے کھلے نہیں رہ سکتے۔

’انہوں نے ذرا بھی رحم نہیں کیا‘

سابق افغان سپیشل فورسز کے اہلکار نجم الدین نے برطانیہ منتقل ہونے کی درخواست پر فیصلے کے لیے چار سال انتظار کیا۔ شدید خطرات میں کئی سال گزارنے کے بعد، بالآخر انہیں محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔ وزارت دفاع کی جانب سے پاکستان کے ویزے کا اہتمام کیا گیا۔

انہوں نے برطانیہ اور افغان فوج کے بہترین اہلکاروں کے ساتھ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ایک خصوصی یونٹ، کمانڈو فورس 333 (سی ایف 333) میں خدمات انجام دیں۔ یہ ان دو سپیشل فورسز یونٹوں میں سے ایک تھی جو برطانیہ کی جانب سے قائم کی گئی تھی۔

اس سال گرمیوں میں انہیں آبادکاری پروگرام (اے آر اے پی) کے تحت برطانیہ منتقل ہونے کی اجازت دی گئی، مگر جیسے ہی وہ افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے، طالبان نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ان کے خاندان کا خیال ہے کہ انہیں اس لیے اٹھایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ وہ ماضی میں برطانوی فوج کے ساتھ مل کر لڑ چکے تھے۔

اس خوفناک واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کے ایک اہل خانہ نے کہا: ’انہوں نے ان پر ذرا بھی رحم نہیں کیا۔ ان کی کمر اور جسم کے دیگر حصوں پر مارا پیٹا، یہاں تک کہ ناخن تک کھینچ لیے۔ وہ انہیں مجبور کر رہے تھے کہ وہ تسلیم کریں کہ انہوں نے اسلحہ چھپا رکھا ہے مگر چوں کہ وہ ایسا نہیں کر رہے تھے اس لیے انہوں نے اقرار نہیں کیا۔

’ان کا مقصد جمہوری دور کے دوران اپنے نقصان کا بدلہ لینا تھا۔ بہت سے طالبان کے عزیز و اقارب جمہوریت کے زمانے میں 333 یونٹ کی فوجی کارروائیوں کے دوران مارے گئے یا گرفتار ہو گئے تھے۔‘

خاندان کے مطابق، سابق ٹرپلز اہلکار کو مصالحت کے بعد قید سے رہا کر دیا گیا، مگر تشدد کے باعث وہ اب بھی شدید بیمار ہیں۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر اس اذیت کی کچھ تفصیلات کو شامل نہیں کیا گیا۔

حمید اللہ ناصری، جو دس سال تک سی ایف 333 میں ایک سپاہی کے طور پر اور پھر آپریشن آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے، 2021 میں برطانیہ منتقل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نجم الدین کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں اور اپنے سابق ساتھی کی حالیہ گرفتاری اور تشدد کی خبر سن کر وہ حیران اور افسردہ ہیں۔

’وہ برطانوی فوج کے ساتھ کئی مشترکہ کارروائیوں میں شریک رہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ اے آر اے پی کی منظوری ملنے کے باوجود وہ اب بھی افغانستان میں ہیں، جہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔‘

ناصری نے بتایا کہ وہ اپنے تقریباً 14 سابق ساتھیوں سے رابطے میں ہیں جنہیں اے آر اے پی پروگرام کے تحت برطانیہ منتقل ہونے کی منظوری مل چکی ہے، مگر وہ اب بھی منتقلی کے منتظر ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ انخلا کے عمل کو فوری طور پر تیز کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ (عمل) بہت سست ہے۔ ان لوگوں کو پہلے ہی منظوری مل چکی ہے، اب صرف منتقل ہونا باقی ہے۔ یہ بات مجھے غصہ دلاتی ہے۔ اگر برطانیہ ان کی مدد نہیں کر سکتا کہ وہ یہاں سے نکل سکیں، تو کم از کم انہیں یہ بتا دے تاکہ وہ خود افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر سکیں۔‘

بیوی اور بچوں کے سامنے گولی مار دی گئی

کچھ سابق فوجی اہلکاروں کے لیے، چاہے وہ کسی پڑوسی ملک میں پہنچ کر وقتی طور پر محفوظ بھی ہو جائیں، یہ خوف ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کہیں ایک دن انہیں واپس طالبان کے حوالے نہ کر دیا جائے۔

یہی انجام علی گل حیدری کا بھی ہوا، جو افغان سپیشل فورسز کے رکن تھے اور امریکی فوج کے ساتھ قریبی طور پر کام کرتے تھے۔ ان کے کمانڈر، جو اب امریکہ میں ہیں، نے انہیں ایک ’بہادر‘ سپاہی قرار دیا جو امریکیوں کے ساتھ کئی کارروائیوں میں شریک رہے۔

ایک امریکی سپیشل فورسز مشیر، جو حیدری کو جانتے تھے اور انہی کی یونٹ میں خدمات انجام دیتے تھے، نے کہا کہ ’وہ ہماری تمام کارروائیوں میں مکمل طور پر شامل تھے۔‘

 

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ بعد، حیدری کو طالبان نے گرفتار کر کے حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا، ان کی اہلیہ حوا کے مطابق اسی اذیت کے بعد رہائی پانے پر وہ افغانستان سے فرار ہو گئے۔

تاہم ایک سال بعد، جب وہ نسبتاً محفوظ زندگی گزار رہے تھے، مزدوری کر کے گھر واپس آتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔

اہلیہ کے مطابق افغانستان واپسی کے بعد حیدری نے عام شہری کی طرح زندگی گزارنا شروع کردی، مگر 2024 کے آغاز میں انہیں گولی مار دی گئی۔ حوا نے بتایا کہ وہ اس گھر کے باہر گئیں جس کا طالبان اہلکاروں نے گھیراؤ کیا ہوا تھا، تاکہ ان سے بات کر سکیں، مگر وہ کچھ کہنے سے پہلے ہی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔

’انتقام‘

افغان نیشنل آرمی کے ایک سابق کرنل نقیب اللہ، اپنی برطانیہ منتقلی کے کیس کے جائزے کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔ نقیب اللہ کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضے نے ان کے بیٹے کی جان لے لی، جب 2022 کے آخر میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور طالبان ارکان نے ان کے بیٹے کو گولی مار دی۔

اپنے خاندان کی مدد سے انہوں نے 2023 میں اے آر اے پی پروگرام کے تحت برطانیہ پناہ کے لیے درخواست دی، لیکن برطانیہ میں پناہ دینے سے انکار کر دیا گیا، حالاں کہ ان کے پاس دو برطانوی شہریوں کے سفارشی خطوط موجود تھے، جو ان کے ساتھ افغانستان میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ یہ خطوط ایک قابلِ اعتماد آزاد کیس ورکر کے ذریعے جمع کروائے گئے تھے۔

ایسے ہی ایک خط میں، جو وزارت دفاع کی افغان آبادکاری ٹیم کو بھیجا گیا اور دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا، لکھا تھا کہ کرنل ’افغانستان میں برطانوی حکومت کے ساتھ بہت قریبی طور پر کام کرتے تھے۔‘

انہوں نے گذشتہ سال ستمبر میں اپنے کیس کے دوبارہ جائزے کے لیے درخواست دی، مگر اس کے بعد سے کوئی جواب نہیں ملا۔

ان کے ایک داماد، جو افغان آبادکاری پروگرام کے ذریعے برطانیہ منتقل ہو کر اب محفوظ ہیں، نے کہا کہ ’طالبان ان لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے ان کے خاندان کے افراد کو مارا اور وہ خاص طور پر ان لوگوں پر توجہ دیتے ہیں جنہوں نے غیر ملکیوں، امریکیوں اور برطانویوں کے لیے کام کیا، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ حملہ آوروں کے حامی اور ان کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔‘

’اخلاقی طور پر غلط‘

وزارت دفاع کے تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغان شہری جن کی برطانیہ منتقلی کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں اور جو فیصلے کے ازسرنو جائزے کی درخواست دیتے ہیں، انہیں اپنے کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے اوسطاً چھ ماہ سے زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جن افراد نے اپنے اہلِ خانہ کو محفوظ مقام پر لانے میں مدد کی درخواست دی ہے، ان کے کیسز کا جائزہ اوسطاً 10 ماہ تک طول پکڑتا ہے۔

وزارت دفاع فی الحال افغان خصوصی یونٹس کے ہزاروں آبادکاری کیسز کا دوبارہ جائزہ لے رہی ہے، جب کہ دی انڈپینڈنٹ اور لائٹ ہاؤس رپورٹس کی مشترکہ تحقیق نے ان کیسز کے نمٹائے جانے میں سنگین غلطیوں کا انکشاف کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانونی فرم ڈائٹن پیئرس گلن کے ڈینیئل کیری، جو سابق ’ٹرپلز‘ کی نمائندگی کرتے ہیں، نے بتایا کہ ان کے کئی مؤکل فیصلوں کے انتظار کے دوران گرفتار کیے گئے اور تشدد کا نشانہ بنے۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے ٹرپلز مؤکلوں نے 2021 میں اے آر اے پی پروگرام کے تحت درخواست دی تھی اور چار سال گزرنے کے باوجود کئی افراد کو ابھی تک پہلا قانونی فیصلہ نہیں ملا۔ برطانوی حکومت نے فروری 2024 میں ٹرپلز ریویو شروع کیا تاکہ ہزاروں غلط انکار کا دوبارہ جائزہ لیا جا سکے اور ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ عمل تین ماہ میں مکمل ہو جائے گا، مگر 20 ماہ گزرنے کے باوجود یہ جائزہ اب بھی جاری ہے۔‘

مس چیمبرلین نے کہا: ’(یہ نتائج) اس بات کی تصدیق کرتے ہیں جس کا ہمیں طویل عرصے سے خدشہ تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کے سابق ارکان طالبان کے دور حکومت میں اب بھی منظم قتل و غارت اور سنگین انتقامی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

’یہ بات اس انٹیلی جنس اور ان اندازوں پر بھی سنگین سوال اٹھاتی ہے جن پر برطانوی حکومت نے اے آر اے پی اور اے سی آر ایس پروگرامز کو نئے درخواست گزاروں کے لیے بند کرتے وقت بھروسہ کیا۔ شواہد بالکل واضح ہیں: وہ لوگ جنہوں نے ہماری افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر لڑائی لڑی، اب بھی خطرے میں ہیں۔‘

میجر جنرل ہربرٹ نے مزید کہا کہ ’یہ بالکل واضح تھا کہ طالبان کبھی ان لوگوں کو معاف نہیں کریں گے جنہوں نے ان کے خلاف اتنی سخت اور کامیاب جدوجہد کی۔ خاص طور پر افغان سپیشل پولیس یونٹس، جنہیں ٹرپلز کہا جاتا ہے۔

’یہ نہایت تکلیف دہ اور اخلاقی طور پر غلط ہے کہ حکومت نے اس سال ان پروگراموں کو مکمل طور پر بند کر دیا۔‘

ان نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے، جو دی انڈپینڈنٹ اور امریکہ کے ملٹری ٹائمز کے ساتھ مشترکہ طور پر شائع کیے جا رہے ہیں، ہیومن رائٹس واچ کی پٹریشیا گوسمین نے کہا: ’طالبان قیادت نے عام معافی کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ ان سینکڑوں سابق افغان سکیورٹی اہلکاروں کے لیے بے معنی ثابت ہوا جو سابق حکومت سے وابستہ تھے اور اگست 2021 کے بعد سے یا تو مارے جا چکے ہیں یا چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

’مقامی طالبان کمانڈروں نے درجنوں سابق افغان فوجی، پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قتل کیا یا زبردستی غائب کر دیا، کسی قسم کی جواب دہی یا سزا کے بغیر۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ یہ اموات طالبان کی اعلیٰ حکام کی منظوری یا کم از کم اس کی چشم پوشی کے تحت ہو رہی ہیں، جو اپنے ہی سپاہیوں کو سزا دینے سے گریزاں ہیں۔‘

وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا: ’ہم ان اہل افغان شہریوں سے اپنے وعدے کو پورا کر رہے ہیں جنہوں نے منتقلی کے تمام متعلقہ مراحل مکمل کر لیے ہیں۔ جیسا کہ عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں، برطانیہ آنے والے ہر شخص کو سخت سکیورٹی اور داخلے کی جانچ سے گزرنا ہوتا ہے، جس میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔

’حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ افغان آبادکاری کا عمل غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتا۔ ایراپ پروگرام چار سال سے زیادہ عرصے تک فعال رہا اور اس کے بند ہونے سے پہلے دی گئی درخواستیں اس سے متاثر نہیں ہوں گی۔‘

رپورٹنگ ٹیم نے صرف ان کیسز کو شامل کیا جن پر افغان میڈیا شراکت داروں نے رپورٹ کیا اور جن کی کم از کم ایک اضافی ذریعے سے تصدیق ہو سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ نشانہ بننے والے افراد کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مزید ایسے واقعات کے امکانات موجود ہیں۔

حفاظتی وجوہات کی بنا پر کچھ نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا