کیا انڈیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے قریب ہے؟

امیر خان متقی کو انڈیا کے پانچ روزہ تفصیلی دورے کے دوران وزیر خارجہ کی حیثیت سے مکمل پروٹوکول دیا جائے گا۔

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ انڈیا کو اسلام آباد میں یقیناً بڑے غور، باریکی اور تفصیل سے دیکھا جائے گا۔ یہ کسی بھی طالبان وزیر کا انڈیا کا پہلا دورہ ہے۔

اگرچہ انڈیا نے طالبان کی پہلی اور موجودہ دوسری حکومت کو آج تک تسلیم نہیں کیا لیکن اس دورے سے قبل انڈین میڈیا خبریں دے رہا ہے کہ نئی دہلی اور کابل کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں اور انڈیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے قریب ہے۔

اس اعتماد کی وجہ افغان وزیر خارجہ کی ماسکو فارمیٹ کے علاقائی گروپ میں پہلی مرتبہ بحثیت باضابطہ رکن شرکت ہے۔ روس پہلے ہی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلے ملک بن چکا ہے اور انڈین خارجہ پالیسی کا جھکاؤ بھی آج کل ماسکو کی جانب زیادہ ہے۔

 ماسکو اجلاس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے افتتاحی خطاب میں مغرب کی افغانستان پر پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مقابلے اور مخاصمت کی بجائے مل کر بہتری کی کوشش کا مشورہ دیا۔ اس کا یہی شاید مشورہ انڈیا کو بھی ہو۔

امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں فارمیٹ کے رکن ممالک سے تعلقات میں بہتری کی جانب اشارہ دیا۔ 

تاہم افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی حسن خان کے مطابق طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے امکانات کم ہیں۔ ’اس دورے کے دیگر مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن انڈیا ابھی ایسا نہیں کرے گا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کو معلوم ہے کہ پاکستان اور امارات اسلامی کے درمیان تعلقات میں کافی کشیدگی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ طالبان کے قریب ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔‘

حسن خان کا کہنا تھا کہ طالبان کو افغانستان میں معاشی مدد کی ضرورت ہے تاکہ معاشی حالات بہتر بنائے جاسکیں۔ ’انہیں صحت، تعلیم اور تعمیرات میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو انہیں انڈیا سے مل سکتی ہے۔‘

اخبار دی ہندو کے مطابق امیر خان متقی کو انڈیا کے پانچ روزہ تفصیلی دورے کے دوران وزیر خارجہ کی حیثیت سے مکمل پروٹوکول دیا جائے گا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر 10 اکتوبر کو بات چیت کے لیے حیدرآباد ہاؤس میں ان کا استقبال کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کالعدم دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے امیر خان متقی کو انڈیا کا سفر کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم اس سے قبل ان کا پاکستان کا دورہ غیر واضح وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ انہیں امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے اقوام متحدہ سے سفر کی اجازت نہیں ملی تھی۔

نئی دہلی نے 90 کی دہائی والی طالبان حکومت سے تعلقات استوار کرنے کی بجائے اس وقت اس کے مخالف مزاحمتی گروپوں کی حمایت کی تھی۔ اب چونکہ افغانستان میں کوئی حزب اختلاف موجود نہیں تو انڈیا کے پاس آپشنز کم ہیں۔ وہ افغانستان کو اس کی سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔

انڈیا نے اب تک افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے، لیکن اس نے تکنیکی مشن اور اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے ذریعے طالبان کے ساتھ سفارتی روابط بڑھائے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ نئی دہلی اس اسلامی گروپ کو کابل میں ڈی فیکٹو اتھارٹی کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔

افغانستان کے لیے انڈیا کے نمائندے آنند پرکاش نے اپریل میں سیاسی اور تجارتی تعلقات پر تبادلہ خیال کے لیے کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا نے فروری میں افغانستان کی امداد کے لیے دو سو کروڑ انڈین روپوں کا اعلان بھی کیا تھا۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا نے ممبئی میں افغان قونصل خانے میں طالبان کے نمائندے کو بیٹھنے اور کابل میں سفارت خانے میں ایک ’تکنیکی ٹیم‘ تعینات کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد انڈیا نے کابل سفارت خانے سے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے تھے۔

انڈیا میں کسی غیر ملکی حکومت کو تسلیم کرنا بنیادی طور پر ایک سیاسی اور سفارتی فیصلہ ہے، جو ایگزیکٹو برانچ، خاص طور پر وزارت خارجہ کی طرف سے لیا جاتا ہے اور اس کے لیے کسی باضابطہ قانونی طریقہ کار یا قانون سازی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

علاقائی اور پاکستان کے تناظر میں افغانستان انڈیا کے لیے بہت اہم ہے، ماضی میں اگرچہ انڈیا اس کے خلاف رہا ہے لیکن اب دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے اسے کڑوی گولی سمجھ کر نگل رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا