طالبان کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی ہونا کیسا ہوتا ہے؟

جب مرد صحافی بلا کسی رکاوٹ کے نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں داخل ہو گئے تو ارپن رائے اور ان کی خواتین ساتھیوں کو دروازے کے باہر ہی انتظار کرنے پر مجبور کیا گیا۔

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی 12 اکتوبر 2025 کو نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں (ارون شنکر/ اے ایف پی)

جب اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی کی زد میں آنے والا ’سابق‘ دہشت گرد آپ کے شہر کا خاموشی کے ساتھ دورہ کرے اور اسے ریڈ کارپٹ پروٹوکول کے ساتھ ساتھ تاج محل کی سیر بھی کروائی جائے تو یہ اپنے آپ میں ایک شاندار کہانی بنتی ہے۔

اس اقدام کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ شخص ایک ایسے نظام کا حصہ ہو جو لاکھوں لڑکیوں اور خواتین پر جبر کرتا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے اور بہت بنیادی انسانی حقوق تک رسائی سے روکتا ہے۔

تو جب یہ خبر ملی کہ طالبان کے نام نہاد ’وزیر خارجہ‘ امیر خان متقی اس ہفتے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچنے والے ہیں، تو میں اپنے آپ کو اس موقعے سے فائدہ اٹھانے سے روک نہیں سکی کہ ان کے فرسودہ اور قابل نفرت نظریات پر ان سے سوالات کروں۔

مجھے ذرا اندازہ نہیں تھا کہ آگے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

ان کے دورے سے پہلے کے ہفتوں میں ان کے انٹرویو کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انڈین حکام کو ان کی آمد کی تفصیلات جاننے کے لیے کیے گئے صبح بخیر والے پیغامات کے جواب میں صرف ایک لفظ ’نہیں‘ ملا۔

’میں واقعی اس دورے کی رپورٹنگ کرنا چاہتی ہوں، چاہے انٹرویو ممکن نہ بھی ہو۔‘

دو منٹ بعد ’نہیں۔‘

میں نے سوال کہ ’کچھ بھی نہیں؟‘

’کچھ بھی نہیں۔‘ جواب ملا۔

میں سوچ رہی تھی کہ ’کافی پر ہونے والی آف دی ریکارڈ بات چیت اس شخص کو کیا بگاڑ سکتی ہے جو خودکش حملہ آوروں سے نمٹ چکا ہے۔ افغانستان سے نیٹو کی حکومت ختم کروا چکا ہے اور امریکی یلغار کے خلاف جہاد کا رہنما رہا ہے؟ مجھے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔ میں ابھی تک حیران ہوں۔

اس موقعے پر میرے پاس واحد راستہ یہ تھا کہ میں اس جگہ پہنچ جاؤں جہاں اس طالبان رہنما کی باضابطہ طور پر میزبانی کی جا رہی تھی۔ میں نے اپنی الماری سے سب سے سادہ سفید شلوار قمیص نکالی اور فوراً گھر سے نکل پڑی۔

اعلیٰ سطح کے دورے کے مقام کے باہر، میں نے اور ایک ساتھی فوٹو جرنلسٹ نے محسوس کیا کہ ان کا جینز اور جدید سیاہ شرٹ پہننا ہمارے کام کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ یہ پوری طرح ممکن تھا کہ ہمیں کمرے سے نکال دیا جائے کیوں کہ ہمارے سروں پر دوپٹے نہیں تھے اور ہم، یوں کہیے کہ موقعے کے مطابق لباس میں نہیں تھیں۔

لہٰذا ہم جلدی سے مقامی مارکیٹ کی طرف دوڑ پڑے تاکہ کچھ اوڑھنے کے لیے کپڑے لے سکیں۔ وہاں سے ہم نے لمبی آستینوں والے کپڑے اور دوپٹے خریدے تاکہ سر ڈھانپ سکیں، پھر فوراً گاڑی میں واپس آ کر نیا لباس پہن لیا اور ساتھ ہی سفارت خانے سے یہ منوانے کی کوشش کرتی رہیں کہ ہمیں اپنا کام کرنے دیا جائے۔

مگر ہمیں یہ جلد ہی معلوم ہو گیا کہ ہمارا لباس کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اصل مسئلہ تو ہماری موجودگی ہی تھی۔

جب ہم طالبان وزیر کی پریس کانفرنس کے لیے سفارت خانے کے باہر انتظار کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ میرے مرد صحافی دوست بلا کسی رکاوٹ کے آرام سے اندر جا رہے ہیں۔

دوسری طرف میری خواتین ساتھی اور میں خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ ہم افغان سفارت خانے کے عملے سے اندر جانے کی اجازت مانگتے ہوئے، اپنے پریس کارڈ ان کے سامنے لہراتے رہے۔

ایک موقعے پر تو حالات اتنے تھکا دینے والے ہو گئے کہ مجھے اپنی بات سفارت خانے کی دیوار کے پار پہنچانے کے لیے پنجوں کے بل کھڑا ہو کر اپنا چہرہ دکھانا پڑا۔ دہلی پولیس کے سکیورٹی اہلکاروں نے غصے سے ہمیں پیچھے ہٹنے کو کہا۔

یہ اب کسی کے لیے حیرت کی بات نہیں رہی کہ طالبان ایک پڑھی لکھی، مالی طور پر خودمختار افغان عورت کے تصور سے نفرت کرتے ہیں۔ خواتین کے پارکوں میں جانے، عوامی سطح پر بولنے، بلکہ کھڑکیوں سے دکھائی دینے تک پر پابندی ہے۔

برسوں سے میں افغان لڑکیوں اور خواتین کی وہ کہانیاں سنتی آ رہی ہوں جو مجھ سے خفیہ طور پر رابطہ کرتی ہیں تاکہ بتا سکیں کہ کس طرح وہ صرف تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پر سر پر بندوق تانے جانے یا قید میں ریپ سے بال بال بچیں۔

مگر یہ خیال کہ طالبان انڈیا کو اپنی مرضی کے آگے جھکا سکتے ہیں، ایک نیا اور انتہائی افسوس ناک موڑ ہے جس کے لیے میں بالکل تیار نہیں تھی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے پاس اتنی طاقت ہو گی کہ وہ مجھے میری اپنی سرزمین پر بےدخل کر دیں اور میری آنکھوں کے سامنے ایک چھوٹا سا کابل بنا دیں۔

مرد حضرات کو اپنا کام کرنے کی اجازت دے دی گئی، مگر ہم خواتین کو، جنہیں صرف ہماری صنف تک محدود کر دیا گیا، داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجھے اچانک احساس ہوا کہ وہ تو ابتدا سے ہی ہمیں وہاں نہیں چاہتے تھے۔

اگرچہ انڈین حکام کے پاس پریس کانفرنس میں شریک صحافیوں کی فہرست موجود تھی، پھر بھی وہ جانتے تھے کہ خواتین پر پابندی لگائی جائے گی اور انہوں نے اس پر رضامندی ظاہر کی۔

ان مرد حضرات سے معلوم کرنے کے بعد جنہیں پریس کانفرنس میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی کہ کیا ان بند دروازوں کے پیچھے جیوپولیٹکس، جنگوں یا جہاد کے بارے میں کوئی ایسی اہم بات ہوئی جو ہماری نازک، چھوٹی، نسوانی سماعتوں تک نہیں پہنچنی چاہیے تھی؟ میں نے سر سے دوپٹہ اتارا اور وہاں سے چلی گئی، اس دن کے واقعات سے دل گرفتہ۔

یہ تجربہ ان صحافیوں جنہیں اکثر دوڑ دھوپ، درخواستیں اور منت سماجت کرنی پڑتی ہے، کو بھی سب سے زیادہ ذلت آمیز لمحوں میں سے ایک محسوس ہوا۔

میں رات کو بستر پر گئی اور سوچتی رہی کہ میرے ساتھ کتنا برا سلوک کیا گیا۔ میرے دل میں غصے اور نفرت کی ایک لہر اٹھی۔

طالبان اس قابل ہو گئے کہ یہ طے کریں کہ خواتین کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں۔ حتیٰ کہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر بھی۔

انڈیا خاموشی سے تماشا دیکھتا رہا۔

عالمی میڈیا کے دباؤ کے بعد، اب ہمیں آج متقی کے ساتھ ایک الگ پریس کانفرنس میں بلایا گیا ہے۔ مگر میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکی کہ یہ بہت کم اور بہت دیر سے کیا گیا۔ ایک حکمتِ عملی کا حصہ، بس اپنی ساکھ بچانے کے لیے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ اس عورت دشمن حکومت سے روابطہ قائم رکھیں گے؟ اور مزید کتنی خواتین کے حقوق پامال کیے جائیں گے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر