انڈیا میں کانگریس سے تعلق رکھنے والی پرینکا گاندھی سمیت مختلف اپوزیشن رہنماؤں نے جمعے کو نئی دہلی میں ہونے والی افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس کی کوریج کے دوران خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر شدید تنقید کی، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔
امیر خان متقی نے گذشتہ روز انڈین ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تجارت، انسانی امداد اور سکیورٹی تعاون پر بات چیت کی۔
اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں کوئی خاتون صحافی موجود نہیں تھیں، جس پر انڈیا میں شدید تنقید ہوئی۔ اس موقعے کی تصاویر میں دکھایا گیا کہ طالبان رہنما صرف مردوں کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے ایکس پر پوسٹ کیا: ’وزیراعظم نریندر مودی جی، براہ مہربانی طالبان کے نمائندے کے دورہ انڈیا کے موقعے پر ان کی پریس کانفرنس سے خاتون صحافیوں کو ہٹائے جانے پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔‘
Prime Minister @narendramodi ji, please clarify your position on the removal of female journalists from the press conference of the representative of the Taliban on his visit to India.
— Priyanka Gandhi Vadra (@priyankagandhi) October 11, 2025
If your recognition of women’s rights isn’t just convenient posturing from one election to…
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ کا خواتین کے حقوق کو تسلیم کرنا ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک محض آسان سیاسی دکھاوا نہیں ہے تو پھر ہمارے ملک میں انڈیا کی بعض انتہائی قابل خواتین کی اس توہین کی اجازت کیسے دی گئی؟ وہ ملک جس کی خواتین اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہیں اور اس کا فخر بھی۔‘
لوک سبھا کی رکنِ پارلیمنٹ اور آل انڈیا ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والی مہوا موئترہ نے بھی ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈین وزارتِ خارجہ نے اس شخص، طالبان وزیر خارجہ کے لیے سرخ قالین بچھایا، جنہوں نے جسارت کرتے ہوئے کہا کہ اس کمرے سے خواتین کو نکال دیا جائے جہاں وہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’پریس کانفرنس میں شریک کسی مرد صحافی نے احتجاج میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ اس ملک کی ہر عورت اس واقعے سے باخبر ہو، اس توہین پر غصہ محسوس کرے اور ہماری حکومت سے سوال کرے۔‘
سینیئر کانگریس رہنما پی چدم برم نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بہت افسوس ہوا کہ افغانستان کے امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر رکھا گیا۔ میری ذاتی رائے میں جب مرد صحافیوں کو معلوم ہوا کہ ان کی خاتون ساتھیوں کو نکال دیا گیا ہے (یا مدعو نہیں کیا گیا) تو انہیں وہاں سے اٹھ کر چلے جانا چاہیے تھا۔‘
پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کی عدم موجودگی پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’عورت دشمنی‘ اور ’انڈیا کی جمہوری اقدار کی توہین‘ قرار دیا۔
طالبان جو افغانستان کی موجودہ حکمران قوت ہیں، نے اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کو تعلیم، ملازمت اور دیگر عوامی مقامات پر جانے سے روک رکھا ہے۔
تاہم ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق انڈین حکومت نے ہفتے کو واضح کیا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔
حکومتی ذرائع نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’کل نئی دہلی میں ہونے والی افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے وزارت امور خارجہ کا کوئی تعلق نہیں۔‘