متقی کا دورۂ انڈیا: امید اور خطرے کے درمیان سفارتی توازن

انڈیا کے دورے کے ذریعے کابل نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع، خودمختاری اور توازن چاہتا ہے۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی 10 اکتوبر 2025 کو دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا حالیہ دورہ سفارتی منظرنامے میں ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں اور فضائی حملوں نے خطے کا ماحول غیر معمولی طور پر کشیدہ کر دیا ہے۔

دہلی میں ہونے والی ملاقاتوں نے نہ صرف افغان انڈیا تعلقات میں نیا باب کھولا بلکہ اس نے طالبان حکومت کی علاقائی حکمتِ عملی کے نئے رخ کو بھی نمایاں کیا ہے۔ اس کے ذریعے کابل نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع، خودمختاری اور توازن کی راہ پر گامزن ہے۔

امیر خان متقی نے نئی دہلی میں انڈین وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں، جن میں دوطرفہ تجارت، انسانی بنیادوں پر تعاون، اور تعلیمی روابط کی بحالی جیسے امور پر پیش رفت ہوئی۔

ذرائع کے مطابق، کابل اور دہلی کے درمیان براہِ راست پروازوں کی بحالی پر بھی سنجیدگی سے غور کیا گیا، جس سے عوامی رابطوں اور کاروباری تعلقات میں نئی جان پڑنے کی امید ہے۔

اس دورے نے افغانستان کے لیے کئی پہلوؤں سے مثبت نتائج پیدا کیے۔ ایک طرف کابل کو بین الاقوامی سطح پر سیاسی قبولیت کی راہ ہموار کرنے کا موقع ملا، تو دوسری جانب انڈیا جیسے بڑے ملک کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے علاقائی توازن کے امکانات میں اضافہ ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان حکومت اس دورے کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ اب کسی ایک ملک یا محور پر انحصار نہیں کرے گی، بلکہ کثیر جہتی خارجہ پالیسی کے تحت تمام ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے ساتھ بامقصد تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔

یہ حکمتِ عملی کابل کو نہ صرف سفارتی خودمختاری فراہم کرتی ہے بلکہ اقتصادی اور انسانی تعاون کے نئے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔

اس دورے کا ایک نمایاں پہلو تعلیمی تعاون سے متعلق گفتگو تھی۔ انڈین حکام نے عندیہ دیا کہ افغانستان کے ہونہار طلبہ کے لیے اعلیٰ عصری تعلیم کے مواقع میں اضافہ کیا جائے گا۔

اسی طرح برصغیر کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے بھی افغان طلبہ کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس سے افغان نوجوانوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ مذہبی تعلیم کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔

یہ پیش رفت افغانستان کے علمی و فکری استحکام میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی پائی جا رہی ہے۔

پاکستان کی جانب سے سرحد پار فضائی حملے اور اس کے جواب میں افغان فورسز کے پاکستانی مورچوں پر جوابی حملوں نے ماحول کو خاصا کشیدہ بنا دیا ہے۔

پاکستان نے افغان حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے، اور یہ مؤقف نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی فورمز، بشمول عالمی سلامتی کونسل میں بھی بارہا دہرایا گیا ہے۔

اب پہلی بار افغان طالبان کی جانب سے بھی پاکستان پر الزامات سامنے آئے ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’داعش کے مراکز پاکستان میں ہیں اور بعض حکومتی حلقے اس گروہ کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق داعش نہ صرف افغانستان بلکہ ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں ہونے والے حملوں میں بھی ملوث ہے، اور ان کی کارروائیوں کے تانے بانے پاکستان کی سرزمین سے ملتے ہیں۔

کابل میں موجود افغان سیاسی تجزیہ کار اس صورت حال کو سیاسی توازن کے بجائے بڑھتے ہوئے پراکسی خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ بیانیہ اسی سمت بڑھتا رہا تو خطہ ایک بار پھر باہمی الزام تراشی اور اعتماد کے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی اور انڈیا کے ساتھ بڑھتی قربت نے طالبان حکومت کو ایک نازک مگر اہم سفارتی آزمائش کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کابل پاکستان اور انڈیا جیسے دو اہم ایٹمی طاقتوں کے درمیان کس طرح غیر جانب داری اور توازن برقرار رکھتا ہے۔

انڈیا میں اپنے خطاب کے دوران امیر خان متقی نے واضح کہا، ’افغانستان کی سرزمین نہ اسلام آباد کے خلاف استعمال ہوگی اور نہ دہلی کے خلاف۔‘

یہ بیان طالبان حکومت کی غیر جانب دارانہ اور ذمہ دار سفارت کاری کا مظہر سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان ایک بار پھر اسلام آباد اور دہلی کی پراکسی سیاست کے بیچ پھنسنے کے خطرے سے دوچار ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان واقعی اس جغرافیائی کشمکش میں غیر جانبدار رہ سکیں گے، یا افغانستان ایک بار پھر علاقائی طاقتوں کی مقابلہ گاہ بن جائے گا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر