جدید سفارت کاری کی طویل تاریخ میں اس سے زیادہ سادہ لوح، غیر متوازن یا سٹریٹجک لحاظ سے لاپروا تجویز کو یاد کرنا مشکل ہے جو واشنگٹن میں گردش کرنے والا 28 نکاتی ’امن منصوبہ‘ ہے۔
اس کی شرائط 1914 میں سربیا کو دیے گئے آسٹرین الٹی میٹم کی بازگشت ہیں۔ یہ ایک ایسی فہرست تھی جو اتنی شدید تھی کہ اسے مسترد کرنے اور پہلی جنگ عظیم شروع کرنے کے لیے ہی وضع کیا گیا تھا۔
اور پھر بھی حیرت انگیز طور پر، اس بار کیئف پر دباؤ ہے کہ وہ اتنی ہی ناقابلِ قبول چیز کو قبول کر لے۔
اگر 28 بلٹ پوائنٹس کو ہٹا دیا جائے تو تین بنیادی مطالبات سامنے آتے ہیں۔ اول، یوکرین کی سکیورٹی کو جان بوجھ کر کم کیا جائے گا: اس کی مسلح افواج کو تقریباً نصف کر دیا جائے گا۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر پابندی ہو گی۔ غیر ملکی فوجیوں پر پابندی ہو گی۔ نیٹو کی رکنیت کو خارج کر دیا جائے گا۔
دوسرا، یوکرین سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ نہ صرف روس کے زیر قبضہ تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائے، بلکہ ان علاقوں سے بھی جن پر روس نے دعویٰ تو کیا ہے مگر وہ اس کے قبضے میں نہیں ہیں۔
تیسرا۔ اور یہ سطر جتنی آنکھیں کھول دینے والی ہے اتنی ہی خوفناک بھی: ’یہ توقع کی جاتی ہے کہ روس پڑوسی ممالک پر حملہ نہیں کرے گا، اور نیٹو مزید توسیع نہیں کرے گا۔‘ توقع، شرط نہیں۔
روس پر فی الحال اپنے حملے کو روکنے کی پابندی ہے، لیکن بعد میں جارحیت دوبارہ شروع کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اس کے بدلے میں، اسے جی 8 میں واپس خوش آمدید کہا جائے گا جیسے کہ اس کا حملہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ درحقیقت ماسکو کا تیار کردہ تصفیہ ہے جو ماسکو کے لیے ہے، لیکن امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ۔
جب ایک خودمختار قوم کو ایسی رعایتوں پر مجبور کیا جاتا ہے جو اس کی طویل مدتی سکیورٹی کو کمزور کرتی ہیں، ایک جارح کو نوازتی ہیں اور مختصر مدت کے سکون کے وعدے کے بدلے اس کے مستقبل کا سودا کرتی ہیں، تو یہ سفارت کاری نہیں ہے۔
یہ ہتھیار ڈالنا ہے۔ یہاں تک کہ ناتجربہ کار آنکھ کے لیے بھی، 1938 میں میونخ کی بازگشت واضح ہے: ایک جمہوریت کو دادگیر کے سامنے زمین دینے پر مجبور کیا گیا، اس امید، اس خیالی دنیا میں، کہ خوشامد سے بڑی جنگ ٹل جائے گی۔
دریں اثنا، یورپ جاگ رہا ہے۔ فرانس کے فوجی سربراہ نے کھلے عام خبردار کیا ہے کہ یورپ کو جلد ہی روس سے لڑنا پڑ سکتا ہے۔ پولینڈ اور جرمنی قومی سروس کی واپسی پر بحث کر رہے ہیں۔
تقریباً ہر مغربی ملک دفاعی اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے کیونکہ عالمی سلامتی کی صورت حال بگڑ رہی ہے۔
تو پھر ٹرمپ نہ صرف ایسے روس نواز معاہدے کی توثیق کیوں کریں گے بلکہ یوکرین کو اسے چند دنوں کے اندر قبول کرنے کا الٹی میٹم دے کر دھمکی کیوں دیں گے؟
زیلنسکی نے اسے ’ہماری تاریخ کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک، اپنا وقار کھونے یا ایک اہم ساتھی کو کھونے کے درمیان انتخاب‘ قرار دیا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ داؤ پر کیا لگا ہوا ہے: تعمیل نہ کرنے سے امریکی انٹیلی جنس اور جدید ہتھیاروں تک رسائی کھونے کا خطرہ ہے۔
رواں سال کے اوائل میں، انٹیلی جنس شیئرنگ کی مختصر معطلی کے میدان جنگ پر تباہ کن نتائج برآمد ہوئے تھے۔
اب، ’اتحادیوں کا گروپ‘ (coalition of the willing) 30 سے زیادہ ممالک کا ایک گروپ جو کسی بھی امن معاہدے کی نگرانی کا پابند ہے، منگل کو دوبارہ اجلاس کرے گا تاکہ اگر پوتن کے روس کے ساتھ حملہ ختم کرنے کا کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو کیئف کی سکیورٹی کی ضمانت دی جا سکے۔
دنیا اس وقت زیادہ محفوظ ہوتی ہے جب ایک جیو پولیٹیکل مرکز موجود ہو، جو ایسے ملک کی شکل میں ہو سکتا ہے جو قیادت کرنے، جارحیت پسندوں کو روکنے، بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے اور اتحادیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے تیار ہو۔ 1945 سے یہ ذمہ داری امریکہ کے پاس تھی۔ لیکن یوکرین پر روس کا ساتھ دینے، ماسکو کے وعدوں پر بھروسہ کرنے اور یوکرین کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی واشنگٹن کی آمادگی کسی گہری چیز کا اشارہ دیتی ہے: امریکہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہ چیز ایک خطرناک خلا پیدا کر رہی ہے، اور اسے مخالفین پر کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کے موقف کو سمجھنے کے لیے، ہمیں اس کے پیچھے موجود عالمی نقطہ نظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے ’ٹرمپ ازم‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ پاپولزم، قوم پرستی اور شکایت کی سیاست (grievance politics) کو یکجا کرتا ہے، جسے جنگجوانہ بیان بازی کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
یہ موقف عالمی اداروں کو مسترد کرتا ہے، اتحادوں کو بوجھ قرار دے کر اتار پھینکتا ہے، اور دنیا کو بڑی طاقتوں کے اکھاڑے کے طور پر دیکھتا ہے جو اثر و رسوخ کے دائروں کو تقسیم کر رہے ہیں۔ اس ورلڈ ویو میں، امریکہ پاناما سے کینیڈا، یہاں تک کہ گرین لینڈ تک ہر شے کو کنٹرول کرتا ہے۔
روس کو یوکرین پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اسی کی توسیع کے طور پر چین بھی تائیوان پر اپنا تسلط قائم کر لے گا۔
ٹرمپ ازم قوانین پر مبنی آرڈر کے خیال کو ترک کرتا ہے۔ یہ الفا لیڈروں کی ایک جنگل کی دنیا کو اپناتا ہے جو کرۂ ارض کو جاگیروں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ اس منطق کے تحت، ’امریکہ سب سے پہلے‘ (America First) کا مطلب ہے نیٹو پر سوال اٹھانا، یورپ سے پیچھے ہٹنا، ٹیرف کی جنگیں شروع کرنا، امداد میں کٹوتی کرنا، موسمیاتی خطرات کو نظر انداز کرنا اور اقوام متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اداروں کو مسترد کرنا۔
اس کے تحت خارجہ پالیسی لین دین بن جاتی ہے: اگر روس یوکرین سے بہتر نایاب دھاتوں کے سودے پیش کرتا ہے، تو وفاداری بدل جاتی ہے۔
یورپ کو بے وقوف نہیں بننا چاہیے۔ ہم جتنی دیر اس یقین سے چمٹے رہیں گے کہ ٹرمپ آخرکار پوتن کے سامنے کھڑے ہوں گے، ہم اتنا ہی زیادہ وقت کریملن کو دوبارہ مسلح ہونے اور دوبارہ منظم ہونے کے لیے تحفے میں دیں گے، بالکل اسی طرح جیسے نازی جرمنی نے میونخ کے بعد کیا تھا۔ یہ منصوبہ جنگ ختم کرنے سے بہت دور ہے، یہ صرف اس وقت تک مہلت دیتا ہے جب تک روس اپنی طاقت دوبارہ تعمیر نہ کر لے۔
ٹرمپ کا دور اقتدار مستقل نہیں ہے۔ امریکہ، وقت کے ساتھ، اپنے عالمی مقصد کو دوبارہ دریافت کر لے گا۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، یورپ، اور خاص طور پر برطانیہ، کو سٹریٹیجک مضبوطی دکھانی ہو گی۔
اس عمل کا آغاز اس خطرناک منصوبے کو مسترد کرنے، غیر مبہم طور پر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے، اور یہ تسلیم کرنے سے ہوتا ہے کہ جبر پر مبنی امن بالکل امن نہیں ہے، یہ سفارت کاری کے بھیس میں ہتھیار ڈالنا ہے۔
نوٹ: اس تحریر کے مصنف ٹوبائس ایلوڈ برطانیہ کے سابق وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں۔
© The Independent